Wednesday, August 3, 2011

Role of Ideology and Theme in Short Story

افسانوی تنقید میں نئے پیراڈایم کی جست جو
..................... آئیڈیالوجی اور تھیم

اردوافسانے کی تنقیدعام طور پر تین خطوط پر گام زن رہی ہے:موضوع؛اسلوب و تیکنیک اور سماجی مطالعہ۔ ان خطوط کو اہمیت دینے کے سلسلے میں توازن برقرار نہیں رکھا گیا،موضوع کے مطالعے میں مقابلتاً زیادہ سرگرمی دکھائی گئی ہے اوراسلوبی ،تیکنیکی اور سماجی مطالعات اس کثرت سے نہیں ہو سکے ،جس کا مطالبہ اردو افسانہ اپنے فنی تنوع اور سماجیاتی مضمرات کی بنیاد پر کرتا ہے۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ ہم عموماً فنی و تیکنیکی مسایل سے بھا گتے ہیں۔ دوسری طرف موضوعاتی مطالعے میں بھی سادگی کا یہ عالم ہے کہ اگر افسانے کا موضوع سماج ہے تو اسے سماجیاتی مطالعے کا نعم البدل سمجھ لیا گیا ہے ۔ (یہی عالم نفسیاتی اور اساطیری مطالعات کا ہے)حالاں کہ سماجی اور سماجیاتی مطالعے میں اتنا ہی فرق ہے جتناسماج اور سماجیات میں۔ایک ڈھیلا ڈھالا تصور ہے اور دوسرا ایک باقاعدہ تھیوری ۔اور تھیوری سے تو ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے!بایں ہمہ افسانوی تنقید ،اپنی حدوں میں قید رہنے کے باوجود بعض اہم کارنامے سرانجام دینے میں کام یاب ہوئی ہے۔اسے بھی ایک کارنامہ ہی کہنا چاہیے کہ اردو کی افسانوی تنقید اردو افسانے کو کچھ نئے زاویوں سے سمجھنے کی ضرورت کا احساس ہی نہیں ،تحریک بھی دلاتی ہے۔
اب افسانوی تنقید ،جسے بیانیات کا نام ملاہے،اپنا مدار ایک ثنویت پر رکھتی ہے۔وہ افسانے اور دیگر ہر طرح کے بیانیے کو’’سٹوری‘‘ اور ’’ ڈسکورس‘‘ میں تقسیم کرتی ہے اور ہر قسم کے افسانوی مطالعات اس ثنویت کی بنیاد پرکرتی ہے۔سادہ طور پر،کہانی افسانے یا بیانیے کا سلسلہ واقعات ہے اور ڈسکورس وہ سارا بیانیاتی عمل ہے جو کہانی سمیت پورے بیانیے کو محیط ہے۔کہانی اگرافسانے کا واقعاتی جزرو مد ہے تو ڈسکورس اس کو ممکن بنانے والی لسانی قوت اور حکمتِ عملی ہے۔روایتی افسانوی تنقیدکہانی کو ’’بادشاہ مرا تو ملکہ بھی مر گئی‘‘سے زیادہ نہیں سمجھتی اور پلاٹ کو’’بادشاہ مرا تو اس کے غم میں ملکہ بھی گھل گھل کر مر گئی‘‘سے آ گے خیال نہیں کرتی۔اس کی نظر میں گویا واقعات کا زمانی ترتیب میں کوئی بھی سلسلہ کہا نی ہے جب کہ زمانی ترتیب میں اگر علت و معلول کا سلسلہ بھی قایم ہو جاے تو یہ پلاٹ ہے،مگر اب کہانی کو ایک نیا پیرا ڈایم کہا جانے لگا ہے۔والٹر فشر اسے Narrative Paradigm قرار دیتے ہیں۔یعنی کہانی اب سادہ واقعاتی سلسلہ نہیں ،سماجی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے،اس کے ضمن میں فیصلے کرنے اوررد عمل ظاہر کرنے کا ایک ایسا پیرا ڈایم ہے جو منطقی پیراڈایم سے مختلف ہے۔ہر چند اسے ایک ابلاغی تھیوری کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان ایک عقلی وجود سے زیادہ ایک بیانیہ وجود ہے ،وہ دنیا کی تفہیم اور ترسیل عقلی دلایل کے بجاے بیانیے اور کہانی کی مخصوص منطق کے ذریعے کرتا ہے۔ مگر بیانیہ پیراڈایم افسانوی تنقید میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتی نظر آتی ہے۔انسان کو بیانیہ وجود قرار دے کر سماج اورکائنات سے اس کے رشتے کی نئی معنویت سامنے لائی گئی ہے اورافسانے یا بیانیے کو انسانی وجود کی بنیادی سچائی قرار دیا گیا ہے،ایک ایسی سچائی جو اس کے ہر سماجی عمل کی وقوع پذیری اور جہت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور ڈسکورس افسانے کا فقط اسلوب نہیں،افسانے کے راوی اور بیان کنندے کی پیش کی گئی زندگی کی تعبیر ہے۔
بیانیہ پیرا ڈایم اور ڈسکورس میں بہت کچھ گندھاہوتا ہے۔سادہ اور سرسری قرات کرنے والے نقادوں(جن کا جم غفیر ہے) کا المیہ یہ ہے کہ انھیں افسانہ محض کسی سماجی ،نفسیاتی ،سیاسی ،تاریخی ،تہذیبی یا تخیلی صورتِ حال کا ،براہ راست یا علامتی طور پرترجمان دکھائی دیتا ہے یاافسانہ نگار کے ’’ورلڈ ویو‘‘کا نمایندہ نظر آتا ہے۔اس وضع کی افسانوی تنقید،اپنے تمام بلند بانگ دعووں کے باوجود،افسانے کوسماجی،نفسیاتی یا تہذیبی دستاویز یا پھر افسانہ نگار کی ڈائری ثابت کرنے کے علاوہ کوئی خدمت سر انجام نہیں دیتی۔افسانوی آرٹ میں انسانی وسماجی حقیقت ،اس حقیقت کی کتنی ہی زیریں و بالائی سطحیں اورالتباسی،تخیلی اور’ تشکیلی‘ شکلیں سمائی ہوتی اور ان کی ترسیل کے طور موجود ہوتے ہیں۔ ان کی طرف کم ہی دھیان دیا گیا ہے ۔بہ ہر کیف بیانیہ پیراڈایم اور ڈسکورس میں جو عناصر گندھے ہوتے ہیں،ان میں اہم ترین آئیڈیالوجی اور تھیم ہیں۔
افسانے میں ان کی اہمیت کے کئی زاویے ہیں۔ایک یہ کہ ان کی مدد سے افسانے کی ’’سائنس‘‘تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے:افسانے کے ’’کیا‘‘اور ’’کیوں کر‘‘کا جواب دیا جا سکتا ہے،ایک نئی مگرزیادہ با معنی سطح پر ۔دوسرا یہ کہ اردو افسانے کی نوع بندی کی جا سکتی ہے۔حقیقت یہ کہ اردو میں گزشتہ ایک صدی میں تین قسم کے ہی افسانے لکھے گئے ہیں۔اردو افسانہ یا تو آئیڈیالوجی کی بنیاد پر لکھا گیا ہے،یا تھیم کی اسا س پر یا پھر ان دونوں کے بغیر۔آخری قسم کا افسانہ وہ ہے جو تفریحی نوعیت کا ہے۔اس میں کہانی ،پلاٹ تو ہے،مگر ڈسکورس نہیں ہے۔کسی ’’بیانیاتی معمے‘‘کو پیش اور رفتہ رفتہ حل کرنے کو کوشش اور قاری کے جذبہِ تجسس اور حیرت کو بے دار کرنے کی سعی تو کی گئی ہے،مگر کسی بھی نوع اور سطح کی ’’بصیرت‘‘ کی پیش کش اور اس کی تعبیر کا سامان نہیں ہے جو دوسری قسم کے افسانوں کی لازمی شرط ہے۔
اردو افسانے کی چنیدہ مثالوں میں(جنھیں نمایندہ تصور کرکے پیش کیا جاے گا)آئیڈیالوجی اور تھیم کی صورتِ حال کی وضاحت سے پیش تر ان دونوں کی تھوڑی سی نظری بحث مزید گوارا کر لیجیے۔
آئیڈیالوجی اور تھیم میں فرق اور تعلق کی بحث شاید ہی اٹھائی گئی ہو،حالاں کہ اردو افسانے کی ’’روح‘‘تک پہنچنے کے لیے یہ بحث نا گزیر ہے۔آئیڈیالوجی اجتماعی اور تھیم انفرادی ہے۔پہلی تشکیل اور دوسری تخلیق ہے۔آئیڈیالوجی ایک سماجی گروہ کا وہ مخصوص نقطہِ نظر ،عقیدہ ،نظام اقدارہے جو ایک طرف اسے فکری سطح پر منظم کرتا اور اسے گروہی شناخت دیتا ہے دوسری طرف ارد گرد کی حقیقتوں کی تفہیم کا فریم ورک اور ان حقیقتوں کے سلسلے میں رد عمل ظاہر کرنے کا میدان مہیا کرتا ہے۔کوئی نقطہِ نظرآئیڈیالوجی اس وقت بنتا ہے،جب اسے تاریخی اور فطری بنا کر پیش کیا گیا ہو۔ واضح رہے کہ کوئی نقطہِ نظر واقعی فطری اور تاریخی ہو سکتا ہے اور یہ کسی سماجی گروہ کو منظم بھی کر سکتا ہے۔لہذا کسی دوسرے اور آئیڈیالوجیکل نقطہِ نظر میں لطیف فرق یہ ہے کہ آخرالذکر تاریخی اور فطری ہوتا نہیں،اسے ایسا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔اسی صورت میں ہی آئیڈیالوجی اپنی ناگزیر اوربہترین ہونے کا یقین ابھارتی ہے۔ آئیڈیالوجی میں نقطہ نظر کے ’’غیر تاریخی‘‘ ہونے کو دبایا جاتا ہے تا کہ اس سے وہ مقاصد حاصل کیے جاسکیں کسی نقطہِ نظر کے تاریخی ہونے سے حاصل کیے جاتے ہیں۔آئیڈیالوجی ایک طرح سے تاریخ کا استحصال کرتی ہے۔ اردو میں اس کی مثال مارکسی فکر کی ہے ۔یہ اردو میں کسی حقیقی تاریخی عمل کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئی تھی ،یہ ایک ایسے تاریخی مرحلے پر اردو میں داخل ہوئی تھی جب ہمار ا سماج سامراج کے خلاف مزاحمت کے حقیقی جذبات سے لبریز تھا ،لہذا اسے ایک تاریخی نا گزیریت کے طور پر فروغ دینے میں کوئی دقت نہ ہوئی اور سماج کے ایک بڑے گروہ نے خود کو مارکسی آئیڈیالوجی کی رو سے فکری سطح پر منظم اور مشخص کر لیا۔اس کے مقابلے میں تھیم تخلیق کار کا انفرادی موقف ہے اور یہ اسی صورت میں قایم ہو سکتا ہے،جب تخلیق کار اپنے عصر کے کسی مخصوص سماجی گروہ سے فکری اور عقیدتی سطح پر وابستہ ہونے اور اس کی نظر سے دنیا کی تفہیم و تعبیر کے بجاے ایک اپنی ’’نظر‘‘پیدا کرنے میں کام یاب ہو۔ہر چند آخری تجزیے میں کوئی ’’نظر‘‘ یک سر انفرادی نہیں ہوتی ،اس کا ما خذ تاریخ یا معاصر فکر میں کہیں نہ کہیں تلاش کیا جا سکتا ہے ،مگر آئیڈیا لوجی اور تھیم میں فرق یہ ہوتا ہے کہ تھیم کوآئیڈیالوجی کی مانند ’’تاریخی اور فطری‘‘ بنا کر پیش نہیں کیا جاتا؛اسے انسان،سماج ،کائنات کی تفہیم کے ایک امکان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آئیڈیالوجی لازماًایک سماجی گروہ کی فکری حلیف ہوتی اور اس کے استحکام کے لیے کوشاں ہوتی ہے،جب کہ تھیم کسی ایک سماجی گروہ کی محدودیت سے اوپر اٹھ کر انسانی فہم اور بصیرت میں اضافے کا موید ہوتا ہے۔نیز آئیڈیالوجی میں تائید و تقلید کا عنصر ہوتا اور تھیم میں انکارو تنقید کی روش ہوتی ہے۔یہاں ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے ۔بعض اوقات آئیڈیالوجی میں انکارو تنقید کے عناصر ہوتے ہیں،جیسے مارکسی آئیڈیالوجی میں کثرت سے ہیں،مگر جب آئیڈیالوجی قایم ہو جاتی اور ایک سماجی گروہ اس کی مدد سے منظم ہو جاتا ہے تو انکارو تنقید کی بھی تائید و تقلید ہونے لگتی ہے،یعنی انکارو تنقیدکا عمل انھی خطوط پر اور انھی پیراڈیم کے تحت ہوتا ہے جو آئیڈیالوجی میں موجود ہوتے ہیں۔ادھر تھیم اپنے خطوط اور پیراڈیم وضع کرتا ہے،مگر اس بات پر زور دیے بغیر کہ ان کی تقلید کی جاے۔یہ دوسری بات ہے کہ اس میں انسانی فکر کو مہمیز کرنے کا سامان بہ ہر حال ہوتا ہے،جس کی وجہ سے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ افسانے میں آئیڈیالوجی اور تھیم کی شناخت کیوں کر کی جاسکتی ہے؟درج ذیل خطوط اور سوالات کی روشنی میں افسانے کا تجزیہ اس شناخت کو ممکن بنا سکتا ہے۔
*افسانے کا ’’نقطہِ نظر‘‘(view point)کیا ہے؟واحد متکلم یا ہمہ بین ناظرہے؟نیز افسانے کا بیان کنندہ افسانوی عمل میں شریک ہے یا غیر جانب دار ہے؟
* کرداروں ،واقعات یا صورتِ حال کی وضاحت و تعبیر کرتے ہوے کیا موقف اختیا ر کیا گیا ہے؟
*افسانے کے ڈسکورس میں کس بات کی وضاحت کی گئی ہے اور کس بات کو مخفی رکھا گیا یا ان کہا چھوڑ دیا گیا ہے؟
*افسانے کا موٹف کیا ہے؟ یعنی کون سی بات یاجملہ یا لفظ افسانے میں تکرار کے ساتھ آتا اور افسانے کے موضوع کی تنظیم کرتا ہے؟
*افسانے میں Mythos کی صورت کیا ہے؟یعنی وہ کیا بات یا جملہ ہے جوپورے افسانے میں ایک آدھ بار آتا ہے،مگر افسانے کے موضوع کی یک سر نئی مگر افسانوی عمل سے پوری طرح ہم آہنگ تعبیر کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اردو افسانے کی صد سالہ تاریخ میں آئیڈیالوجی اور تھیم متوازی طور پر موجود رہے ہیں۔اس حقیقت کے باوجود کہ اردو افسانہ رومانیت،ترقی پسندی،جدیدیت ،نو ترقی پسندی اور نو جدیدیت یا مابعد جدیدیت ایسی تحریکوں کی زد پر رہا ہے۔اصولاً ہر تحریک اپنی اصل میں یا اپنے مضمرات میں آئیڈیالو جیکل ہوتی ہے،اس لیے سادہ طور پر تو ان تحریکوں کے زمانے میں لکھے گئے افسانے کو آئیڈیالوجیکل قرار دیا جاسکتاہے۔یعنی کہا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کی تیسرے دہے سے چھٹے دہے تک لکھا گیا افسانہ ترقی پسند آئیڈیالوجی کا علم بردار اور حلیف ہے اور چھٹی اور ساتویں دہائی کا افسانہ جدیدیت کی آئیڈیالوجی کو مستحکم کرتا ہے۔مگر ،ظاہر ہے ،یہ نہ اردو افسانے سے انصاف ہے اور نہ افسانہ نگاروں سے۔اس صورت میں اردو افسانہ اپنے عہد کی حاوی آئیڈیالوجی کا مثنٰی بن کر رہ جاتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اردو افسانے میںآئیڈیالوجی اور تھیم کی کارفرمائی کی کیا کیا صورتیں ہیں؟اس ضمن میں پہلی بات یہ کہ کہیں تو آئیڈیالوجی اپنی واشگاف صورت میں پیش ہوئی ہے ،کہیں مخفی صورت میں اور کہیں آئیڈیالوجی اور تھیم ایک دوسرے میں گندھ گئے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اردو افسانہ ان دونوں کے حوالے سے تنوع کا مظاہرہ کرتا ہے۔
*
سعادت حسن منٹو کے بیش تر افسانے تھیم پر مبنی ہیں۔منٹوکا افسانوی عمل کسی سماجی یا ادبی گروہ کا حلیف بننے سے انکار کرتا اورایک نیااور منفرد تھیم تخلیق کرتا ہے۔اس امر کی ایک عمدہ مثال ان کا افسانہ جانکی ہے۔واحد متکلم کے ’’نقطہِ نظر‘‘میں لکھے گئے اس افسانے کا موضوع ’’عورت کی محبت‘‘ ہے اور تھیم یہ ہے:’’ عورت ایک آزاد و خود مختار وجود ہے۔وہ محبت کے فیصلے آزادانہ طور پر کرتی ہے اور اپنی ہر محبت میں پر خلوص ہوتی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ موضوع اور تھیم میں فرق ہوتا ہے اور اس فرق کا لحاظ اکثر نہیں رکھا گیا۔کسی افسانے کا موضوع ایک عام سچائی،رویہ،قدر،مسئلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اس لیے موضوع سے کسی افسانے کے امتیاز کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔اس کے مقابلے میں تھیم خاص ہوتا ہے ۔جیسے اس افسانے کا موضوع ’’عام‘‘ ہے،جب کہ تھیم خاص ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ ہر خاص تھیم میں ایک عمومی صداقت یا اصول بننے کا امکان ہوتا ہے۔
کبھی تھیم افسانے میں کسی مکالمے یا افسانے کے بیان کنندہ کی پیش کی گئی تعبیر میں بیان ہو جاتا ہے اور کبھی یہ پورے افسانے میں ریزوں کی صورت بکھرا ہوتا ہے اور اسے تنکا تنکا جمع کرنا پڑتا ہے،تاہم تھیم کی تائید افسانے کی مجموعی صورتِ حال سے ہو تی ہے۔جانکی تین مردوں :عزیز،سعید اور نرائن سے محبت کرتی ہے۔عزیز اور سعید سے بیک وقت اور نرائن سے اس وقت جب عزیز اور سعید اسے چھوڑ جاتے ہیں۔افسانے میں جانکی کی پہلی دو محبتوں کی تفصیل ملتی ہے اور تیسری محبت کی محض قوی شہادت پیش کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔جانکی کا بہ یک وقت دو مردوں سے محبت کرنا اور اور ان سے مایوس ہونے کے بعد پھر نرائن کی محبت میں مبتلا ہونا،سماج کی حاوی اخلاقی آئیڈیالوجی کی رو سے سخت معیوب بات ہے۔جانکی کا طرزِ عمل مشرقی عورت کے اس تصورسے بری طرح متصادم ہے،جس کے مطابق عورت زندگی میں فقط ایک مرتبہ محبت کرتی اور پھر پوری عمر اس محبت کے استحکام یا اس کی یاد میں بہ خوشی بسر کردیتی ہے۔یلدرم اورنیازکے افسانے عام طور پر اسی تصور کو پیش کرتے ہیں۔منٹو اس افسانے میں اس تصور کو بلند بانگ انداز میں ردّکرنے کا بیانیہ پیش کیے بغیر،اس کے بر عکس تصور پیش کرتے ہیں۔ اس تصور کے مطابق عورت ایک وقت میں ایک سے زائد مردوں سے محبت کر سکتی ہے اور اپنی ہر محبت میں ایک جیسی گرمیِ جذبات کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔جانکی جس اخلاص کے ساتھ عزیز کو خط لکھتی ہے ،اسی اخلاص کے ساتھ سعید کو ٹیلی گرام پہ ٹیلی گرام بھیجتی ہے اور اسی گرمیِ جذبات کا مظاہرہ وہ نرائن کی زینتِ آغوش بننے کی صورت میں کرتی ہے۔
اگر اس تھیم کو منٹو کے پورے افسانوی بیانیے سے ہٹ کر دیکھیں تو جانکی ایک عیاش عورت کے طور پر سامنے آتی ہے،لیکن اگر اسے افسانے کے بیانیاتی تناظر میں دیکھیں تو وہ محض ایک جوان عورت ہے جو اپنی ذات کا اثبات ایک مرد کے ساتھ پر خلوص رشتے کی صورت میں دیکھتی ہے۔اس کے لیے اصل اہمیت ’’پر خلوص رشتے ‘‘ کی ہے۔یہ رشتہ اس کے لیے ایک ایسے چراغ

کی مانند ہے جس کے سامنے مرد کا انفرادی وجود پرچھائیں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔جانکی کے نزدیک تینوں مردوں کی انفرادی شخصیتیں ایک لحاظ سے بے معنی ہیں۔عزیز شادی شدہ ہے،سعید عیاش اور بد مزاج ہے،نرائن کی سرے سے کوئی شخصیت ہی نہیں ہے۔اگر اس تھیم کو ذرا مزیدگہرائی میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خود جانکی کی شخصیت توہے،مگر وہ اسے اپنے رشتوں میں آڑے نہیں دیتی۔افسانے میں جب وہ یہ کہتی دکھائی گئی ہے :’’ سعادت صاحب میں پوچھتی ہوں ،اس میں جرم کی کون سی بات ہے ،اپنی ہی تو یہ چیزہے اور قانون بنانے والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ بچہ ضایع کرتے ہوے تکلیف کتنی ہوتی ہے۔‘‘ ۔۔تو یہاں وہ اپنی شخصیت کا ہی اظہار کرتی ہے ،اور یہ شائبہ بھی ہوتا ہے کہ یہ ایک مضبوط اور انحراف پسند شخصیت ہے۔ایک دوسرے زاویے سے جانکی کا یہ بیان اس کے آیندہ اعمال کوبنیا د اورجواز بھی مہیا کرتا ہے۔نیز وہ عزیز ،سعید اور نرائن سے تعلق میں کسی بھی وقت اپنی ’’انحراف پسند شخصیت ‘‘ کو نہ تو مقابل لاتی ہے اور نہ اس کے استحکام کی کسی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خود اپنی اور تینوں مردوں کی شخصیتوں کو پس پشت ڈالنے کا مطلب یہ باور کرانا ہے کہ مرد عورت کے رشتے میں شخصیت منہا ہو جاتی ہے۔مبادا غلط فہمی پیدا ہو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کردار اور شخصیت میں نہایت نازک فرق ہوتا ہے ،اور یہ فرق نظر انداز کرنے سے افسانے کی تفہیم میں خاصی گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔جانکی شخصیت رکھتی ہے اور افسانے کا کبیری کردار(Protagonist) ہے اور یہ دونوں باتیں ایک دوسر سے مربوط ہونے کے باوجود مترادف نہیں ہیں۔قسم کے اعتبار سے وہ مدوّر کردار(Round Character)ہے۔گویا ایسا کردار جس کے اوصاف پے چیدہ اور ہماری عمومی فکر کی طرز کو چیلنج کرنے والے ہیں۔ہم آسانی کے ساتھ جانکی کے کردار پر کوئی حَکم نہیں لگا پاتے۔وہ ہمارے عورت کے روایتی تصور پر ضرب لگانے کے باوجود ہمارے دل میں اپنے لیے نفرت نہیں ابھارتی۔ہم اندر سے ایک قسم کی ٹوٹ پھوٹ کے علی الرغم اسے بھلانے،نظر انداز کرنے یا مستردکرنے پر خود کو آمادہ نہیں کر پاتے۔وہ ہمارے دل میں اپنے لیے ہم دردی نہیں ابھارتی،مگر حقارت کوبھی تحریک نہیں دیتی۔یہی اس کردار کی پے چیدگی ہے۔دوسری طرف اس کی شخصیت مدوّر نہیں ،چپٹی (Flat)ہے،یعنی اس کے اوصاف کو آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔شخصیت ،ایک
انفرادی نقطہِ نگا ہ کا دوسرا نام ہے۔جانکی کا نقطہِ نگاہ اپنے وجود کی خود مختاری کو منوانے سے عبارت ہے۔وہ اپنے جسم اور وجود کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے ،اور اس ملکیت کے سلسلے میں وہ سماج اور اس کی اخلاقیات کی حاکمیت کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ بہ طور کردار اپنی خود مختاری پر اصرار کے بجاے اس کی قربانی دیتی ہے اوراسی بنا پر پنے رشتوں کو نبھانے میں کام یاب ہوتی ہے۔ یہاں ایک لمحے کے لیے اگر آپ علی عباس حسینی کی میلہ گھومنی کو ذہن میں لائیں تو کردار اور شخصیت کا فرق مزید آئنہ ہو جاتا ہے۔میلہ گھومنی کا کردار کسی حد تک مدوّر تو ہے،مگر اس کی کوئی شخصیت نہیں ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ محض ایک کردار ہے، جس کی شخصیت کی نمو ہوئی ہی نہیں۔وہ افسانے میں اپنے کردار کے اعتبار سے جانکی سے کافی مشابہت رکھتی ہے،وہ بھی تین مردوں سے وابستہ دکھائی گئی ہے :درزی،منو اور گاؤں کے کسان سے ،مگر اسے اپنے وجود کی خود مختارحیثیت کا شعورنہیں اور نہ ہی اپنے وجود کے ’’بے بس کر دینے والی سماجی،جنسی قوتوں‘‘ کے ماتحت ہونے کی آگاہی ہے۔آگاہی شخصیت کی شرطِ اوّلین ہے۔
ہر تھیم ایک منفرد اور مخصوص زمانی و مکانی صورتِ حال میں پیش ہوتا اور تشکیل پاتا ہے،اس لیے خاص ہوتا ہے مگر اس میں اپنے حدود کو پھلانگنے کے’’ نشانیاتی امکانات ‘‘ ہوتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہو تو یہ تھیم نہیں ،آئیڈیالوجی ہے۔نشانیاتی امکانات کو علامتی معنیاتی امکانات سے ممیز کرنے کی ضروروت ہے۔نشانیاتی امکانات ،تھیم میں مضمر خیال،تصور کو ،تھیم کی بنیادی منطق سے وابستہ رکھتے ہوے ،پھیلانے کے عمل سے عبارت ہیں،جب کہ علامتی امکانات میں ،علامت کی بنیادی منطق کو بھی پھلانگا جا سکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں تھیم کی جب تعمیم کی جاتی ہے،اس کی خصوصیت کو عمومیت میں بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ سارا عمل تھیم کی اس بنیادی منطق کے اند رہوتا ہے جو’’مخصوص زمانی و مکانی صورتِ حال‘‘ سے عبارت ہے۔اردو کی افسانوی تنقید میں افسانوں کے تجزیوں اور تعبیروں میں اس اصول کی ہرگز پروا نہیں کی جاتی اور افسانوں کی من مرضی کی تعبیریں کی جاتی ہیں۔اور پھر یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی کہ ایسا کرنا افسانوی متن کا استحصال ہی نہیں ،انسانی فکر کے ساتھ ایک بڑا کھلواڑ بھی ہے۔افسانے کی ہر صورتِ حال علامتی نہیں ہوتی۔بہ ہر کیف اگر جانکی کے تھیم کی تعمیم کریں ،یعنی اس کے نشانیاتی امکانات کی دریافت کریں تو تین باتیں سامنے آتی ہیں۔ایک یہ کہ عورت ایک خود مختار وجود ہے۔دوسری یہ کہ مرد عورت کے جذباتی و جنسی
رشتے میں خلوص اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دونوں کی شخصیتیں منہا ہو جائیں۔اگر اس رشتے میں ایک یا دونوں فریق اپنے انفرادی و شخصی وجود کو برقرار اور مستحکم رکھنے کی سعی کریں تو ان کا نفرادی وجود تو شاید برقرار رہ جاے اور اس کی نشوونما بھی ہو جاے،مگر یہ رشتہ خلوص سے محروم ہو جاے گا۔دوسری یہ بات متبادر ہوتی ہے کہ انسان جب بھی کسی رشتے میں بندھتا ہے تو اپنے اس جوہر سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ،جو اس رشتے کی عدم موجودگی میں اس کی شاید سب سے اہم یافت ہوتا ہے۔زبان سیکھنے سے لے کر کسی گروہ کا حصہ بننے یاکسی سماجی،سیاسی ،انتظامی کمیونٹی میں شامل ہونے کے عمل میں یہ بات مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔دوسرے لفظوں میں،ایک وقت میں ایک بات کا اثبات ہوتا ہے:آدمی کی شخصیت و انفرادیت کا یا رشتے کا۔
اب اگر غور کریں تو جانکی کے تھیم کی یہ تعمیم ہمیں ایک نازک صورتِ حال سے دوچار کرتی ہے۔تعمیم کے نتیجے میں جو دو باتیں سامنے آئی ہیں، ان کی نوعیت کیا ہے؟کیا یہ عمومی صداقت ہیں یا اصول؟اخلاقی قدر ہیں یا ایک ایسی صداقت کا اظہار جو موجود اور کارفرما تو ہے،مگر جس سے ہم عام طور پر آگاہ نہیں ہوتے؟اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان سوالوں کے معقول جواب تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟
اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ صرف بیانیہ پیراڈایم کے ذریعے ہی ہم مذکورہ نازک صورتِ حال سے عہدہ برا ہو سکتے ہیں۔بیانیہ پیراڈایم کی اہم شرط ’’بیانیہ استدلال‘‘ ہے،جو عقلی استدلال سے مختلف ہے۔بیانیہ استدلال ،بہ قول والٹر فشر ،تنظیم(coherence) اور مطابقت(fidelity)سے عبارت ہے۔یعنی
بیانیے کے تمام اجزا (واقعات،بیانات،اطلاعات وغیرہ) میں ربط و تنظیم ہو اور بیانیے اوربیانیے سے باہر کی صورتِ حال میں کسی نہ کسی سطح کی مطابقت ہونی چاہیے۔باہر کی صورتِ حال میں قارئین سے لے کر ان کے تصورات و توقعات اور اشیا و مظاہر کے جاننے سمجھنے کے طریقے تک، سب شامل ہے ۔ظاہر ہے عقلی استدالا ل اس سے مختلف ہوتا ہے اور اس میں یہ باتیں بہ طور شرایط
شامل نہیں ہوتیں۔
بیانیہ استدلال کی اس وضاحت کی روشنی میں غور کریں تو جانکی کے تھیم کی تعمیم سے حاصل
ہونے والی پہلی بات ایک نیم فلسفیانہ اصول ہے۔بشر مرکزیت فلسفے نے انسان کوایک منفرد ہستی قرار دیا ہے،جو اپنے وجود سے متعلق تمام فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔افسانے میں یہ اصول اپنے فلسفیانہ پس منظر کے ساتھ ظاہرنہیں ہوا ،بلکہ بیانیہ پیراڈایم کے اندر پیش ہوا ہے۔اسے ایک عام فلسفیانہ اصول ،جس کا اطلاق تمام انسانوں پر ہوتا ہو،کے بجاے ایک خاص پس منظر کی عورت کی نسبت سے پیش کیا گیا ہے۔یہ عورت سماجی بندھنوں سے نئی نئی آزاد ہوئی ہے:اسے پشاور سے بمبئی تک اکیلے سفر کرنے اورفلمی دنیا میں قسمت آزمانے اور مردوں سے آزانہ اختلاط کی آزادی ملی ہے۔وہ اپنی آزادی کا شعور رکھتی ،اس شعور کا اظہار کرتی اور اسے اپنے آزادانہ فیصلے کرنے میں بروے کار بھی لاتی ہے،مگراس ردّعمل کوبھی اپنے شعور سے برابر متصادم دیکھتی ہے،جو اس کی آزادی کے ضمن میں سماج ظاہر کرتا ہے۔اسی تصادم کے جواب میں وہ اپنی خود مختاری کا اعلان کرتی ہے۔لہٰذاجانکی کے تھیم کی عمومیت انسانی انا کی خود مختاری کے ایک عام فلسفیانہ اصول سے عبارت نہیں ،بلکہ مذکورہ سماجی صورتِ حال میں مقید نسوانی شخصیت کی خود مختاری کا اصول ہے۔اسے مذکور سماجی صورتِ حال میں محصور عام انسانی شخصیت کی خود مختاری بھی قرار نہیں دیا جاسکتا،اس لیے کی جانکی اپنے جینڈر سے اوپر اٹھنے کا امکان نہیں رکھتی۔جب کہ اس افسانے کے تھیم کا دوسرا پہلواخلاقی قدر ہے۔اس لیے کہ ہر وہ قدر اخلاقی ہوتی ہے ،جس میں کسی نہ کسی درجے میں سماجی افادیت ہو،جو سماج میں افراد کے رشتوں کو مستحکم اور مفید بناتی ہواور یہ ایک اخلاقی قدر ہے کہ فرد کسی رشتے کے وجود اور بقا کی خاطر اپنی شخصیت کو بالاے طاق رکھے۔جب کہ تیسری بات ایک ایسااصول ہے جو سماجی میکانزم میں کارفرما تو ہے مگر جو نظروں سے اوجھل ہے۔اس لیے اس افسانے کا تھیم اپنی تعمیمی صورت میں ہمیں اپنے سماجی عمل کی تفہیم میں مدد دیتا ہے،مگر بیانیہ استدلا ل کے ذریعے۔چوں کہ یہ ایک اصول ہے ،اس لیے یہ ہمیں یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ ہم اسے اختیار کریں یا مسترد۔ہم اپنی شخصیت کا اثبات کریں یا اپنے سماجی رشتوں کا۔اس سے آگے اس افسانے کی نشانیاتی حدود ختم ہو جاتی ہیں ۔یعنی یہ افسانہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ
آدمی کے لیے احسن صورت کیا ہے؟ اپنی شخصی نمو یاسماجی سا لمیت۔
اب تک تھیم کے تجزیے میں زیادہ تر کہانی پر انحصار کیا گیا ہے اور افسانے کے دوسرے’’حصے‘‘ڈسکورس کی طرف کم رجوع کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ تھیم ہو یا آئیڈیالوجی،دونوں کے تجزیے میں کہانی اور ڈسکورس اہمیت رکھتے ہیں ،تاہم یہ اہمیت یکساں نہیں ہوتی۔یہ درست ہے کہ ہر افسانہ ،کہانی اور ڈسکورس پر مشتمل ہوتا ہے ،مگرہر افسانے میں دونوں کی کارفرمائی کا عالم یکساں نہیں ہوتا۔بعض میں کہانی اور بعض میں ڈسکورس حاوی ہوتا ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی افسانے کی کہانی عمدہ،مگر اس کا ڈسکورس ناقابلِ رشک ہوتا ہے:افسانے میں واقعات کا انتخاب،ان کا باہمی ربط،اچانک اور متوقع طور پر وقوع پذیر ہونے والے ’’موتف نما واقعات‘‘ قاری کو متوجہ اور متاثر کرتے ہیں،مگر ان کے بیان،راوی کی تعبیروں اور تبصروں میں فنی اور نفسیاتی بصیرت کی افسوس ناک کمی ہوتی ہے ۔مقبولِ عام فکشن اس امرکی سب سے بڑی مثال ہے۔لہٰذا افسانوی تجزیے میں یہ دیکھنا لازم ہوتاز ہے کہ کس افسانے میں کہانی ،ڈسکورس پر غالب ہے اور کہاں اس کے برعکس صورت ہے۔جانکی کے تجزیے میں اگر کہانی پر انحصار زیادہ کیا گیا ہے تو اس کی وجہ ظاہر ہے۔کہانی اور ڈسکورس کی باہمی صورتِ حال کو سمجھے بغیر محض کہانی،یا فقط ڈسکور س پر انحصار کرنے سے افسانے کی فنی وجمالیاتی قدراور اس کے معنیاتی ابعاد نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ اس اعتبار سے موزوں افسانہ ہے کہ اس میں ڈسکورس ،کہانی پر حاوی ہے۔اس مفہوم میں کہ اس افسانے کی معنوی کائنات کی تشکیل میں کہانی سے زیادہ ،کہانی کے بیانیہ عمل ،کرداروں کے بیانات اور راوی(جو واحد غائب ،غیر جانب دار اور ہمہ بین ہے)کی تعبیرات،کا حصہ ہے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کا موضوع’ تقسیمِ ہند‘ہے۔اسے بعض نے ’آزادیِ ہند ‘بھی کہا ہے،جو درست نہیں،اس لیے کہ ایک تو تقسیمِ ہند اور آزادیِ ہندکے معنوی تلازمات میں کافی فرق ہے،اس کے باوجود کہ یہ دونوں باتیں بہ یک وقت ممکن ہوئیں:ایک کا مفہوم سیاسی اور قومی ہے تو
دوسرے کے مفہوم میں ثقافتی،مذہبی تلازمات کا غلبہ ہے۔اور قومی مفہوم بھی کوئی سادہ اور یک جہت مفہوم نہیں ہے۔اس کی تہ میں وہ جغرافیائی اور مذہبی تصوراتِ قومیت موجود ہیں جو آزادیِ ہند کی تحریک کے دوران میں کارفرما تھے۔یہاں یہ سوال اٹھانا بے محل نہیں کہ منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تقسیمِ ہندکوآزادیِ ہند پر ترجیح کیوں دی؟اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ ترجیح کا معاملہ
ہمیشہ اقداری اور آئیڈیالوجیکل ہوتاہے،مگر منٹو کا بہ طور افسانہ نگار کمال یہ کہ اس نے اپنے عہد کی سیاسی قومی فضا کے معاملے میں ایک آئیڈیالوجیکل موقف تو اختیا ر کیا ،مگراپنے افسانوی بیانیوں پر اس موقف کا بوجھ نہیں لادا۔وہ اپنے افسانے کو آئیڈیالوجی کا ترجمان یا آئیڈیالوجی کی تشہیر کا ذریعہ نہیں بناتے۔ان کے یہاں آئیڈیالوجی افسانوی متن سے باہر ،ایک ترجیحی شعور کے طور پر موجود ہوتی ہے۔اور افسانہ تھیم پرمبنی ہوتا ہے۔مگر اس کا کیا کیا جاے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کو ایک آئیڈیالوجیکل متن کے طور پر پڑھا گیا ہے اور اس کے موضوع کو تقسیم کے بجاے ،محدود طور پرآزادیِ ہند قراردیا گیا ہے۔اس رویے کو متن کی ’آزادی ‘پر نقادکے شب خون مارنے کی کوشش کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے! ٹوبہ ٹیک سنگھ بلاشبہ تھیم کا افسانہ ہے۔اور اس کا تھیم ہے:’’ آدمی کا وجود اور شناخت اس دھرتی کی مرہون ہے،جہاں وہ پیدا ہوتا ہے۔اس دھرتی کی تقسیم سے آدمی کا وجود اور شناخت ،تقسیم کے اس بحران کا شکار ہوتے ہیں ،جس سے آدمی سمجھوتا کر سکتا ہے نہ اس سے باہر نکل سکتا ہے۔‘‘
یہ تھیم ،فلسفے کے قبل تجربی اصول(a priori) کی مانند نہیں ہے،جسے من مرضی کا نتیجہ اخذ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو اس افسانے کو بآ سانی آئیڈیالوجیکل افسانہ قرار دیا جاسکتا تھا۔اصل یہ ہے کہ یہ تھیم افسانے کے ڈسکورس میں اسی طرح سرایت کیے ہوے ہے جس طرح برف میں پانی!کسی افسانے میں آئیڈیالوجی کی کارفرمائی جانچنے کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ اس میں راوی یا بیان کنندہ ،افسانوی عمل میں کتنا دخل اندازہوتا ہے۔وہ کسی کردار کے اوصاف کی وضاحت اورکسی واقعے کی تعبیر میں کتنا حصہ لیتا ہے۔اگر یہ حصہ افسانے میں اس کے متعین کردار سے زیادہ ہو اور یہ قاری کو افسانے کے خاص مفہوم کی طرف ہانکنے کے مترادف ہو تو سمجھیے آئیڈیالوجی کارفرما ہے۔مثلاً افسانہ کفن میں جہاں سماجی صورتِ حال کے تناظر میں مادھو اور گھیسو

کی ذہنیت کا تجزیہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ’’جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی.....اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہوجاناکوئی تعجب کی بات نہ تھی۔‘‘یہ سراسربیان کنندہ کی افسانوی عمل میں کھلی مداخلت ہے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کا مذکورہ تھیم پاگلوں کے تبادلے کی اس کہانی کے ذریعے پیش کیا گیا ہے،جو ۵۰..۱۹۴۹ء کے زمانے کو محیط ہے۔یہ وہی زمانہ ہے جب سرحد کے دونوں اطراف سے آبادیوں

کا تبادلہ ہو رہا تھا۔’’دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ....بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہو گیا...وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندستان میں ہی تھے،وہیں رہنے دیے گئے تھے جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔یہاں پاکستان میں چوں کہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے،اس لیے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوا،جتنے سکھ پاگل تھے،سب کے سب پولیس کی حفاظت میں سرحد پر پہنچا دیے گئے۔‘‘یہاں سب سے پہلا سوال ہی یہ پیدا ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے پاگلوں کے تبادلے کی کہانی کا ہی انتخاب کیوں کیا؟کیا مذکورہ تھیم کے لیے پاگلوں کی کہانی ہی اسے موزوں لگی؟تقسیم کے موضوع کے سلسلے میں پاگل خانے کی کیا خصوصی معنویت ہے،جس کی ترسیل افسانہ نگار کو مطلوب ہے؟اس کے جواب میں یہ کہنا تو نری سادہ لوحی ہو گی کہ چوں کہ منٹو نے کچھ عرصہ لاہور کے پاگل خانے میں گزارا تھا ،اس لیے وہ کچھ خصوصی تجربات رکھتے تھے او ر انھی کو اس افسانے میں با اندازِ دگر پیش کیا ہے۔اصل یہ ہے کہ اس افسانے کے تھیم کا نشانیاتی اور’وجودیاتی تعلق ‘پاگل خانے کے ساتھ ہے۔
منٹو نے اس افسانے میں جن پاگلوں کو پیش کیا ہے،اگرچہ وہ کئی قسم کے ہیں،مگر کوئی ایک بھی ایسا نہیں ،جس کی حرکات یا بیانات کی تقسیم کے ضمن میں گہری معنویت نہ ہو۔مثلاًپہلا پاگل مسلمان ہے جو بارہ برس سے ’’زمیندار‘‘ کا مطالعہ کررہاہے۔جب اس سے پاکستان کے بارے میں پوچھا جاتاہے تو اس کا جواب آج ساٹھ برس بعد زیادہ بلاغت کے ساتھ سمجھ میں آتا ہے۔’’ہندستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔‘‘استر ے کی لغوی اور استعاراتی معنویت عیاں ہے:سنگدلی اور مہارت سے کاٹنا،آدمی کا گلہ ہو ،دوسروں کا حق ہوکہ آئین اور

قانون ! اسی طرح ایک پاگل کا درخت پر چڑھ کر یہ اعلان کرنا کہ ’’ میں ہندستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں.....میں اس درخت پر ہی رہوں گا۔‘‘انخلاع کی تمثیل اس سے بہتر کیا ہوگی!اور ایم ۔ایس ۔سی پاس ریڈیو انجینر کا باغ کی روش پر تمام کپڑے اتار کر ،ننگ دھڑنگ گھومنا شروع کرنا ،قبل منطق عہد میں پہنچنے کی تمثیل ہے۔ان باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنابے جا نہیں کہ پاگل خانے میں مریض نہیں ،منحرفین رکھے جاتے ہیں۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تمام پاگل ایک درجے میں منحرفین ہیں۔مریض اور ’پاگل منحرف‘ میں موٹا فرق یہ ہے کہ مریض ارد گرد سے لا تعلق ہوتا
ہے،وہ ارد گرد میں رونما ہونے والے ان واقعات سے جو اس کے طبعی وجود پر اثرانداز نہیں ہوتے، ان کے سلسلے میں کسی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کرتا۔دوسرے لفظوں میں وہ محض جسم کی سطح پر جیتا ہے، جب کہ پاگل ارد گرد کے واقعات پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس کا ردعمل ،شعورِ عامہ سے مختلف ہوتا اور بعض صورتوں میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس کا ردعمل ایک طرح کا کوڈ ہوتا ہے،جس کی تفہیم کے لیے شعور عامہ کو ایک نئی ،مگر اس کوڈ سے نشانیاتی سطح پر ہم آہنگ منطق وضع کرنا پڑتی ہے۔تمام منحرفین بھی اپنے اعمال کی نئی منطق پیش کرتے ہیں۔ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کئی کوڈ ہیں۔
منٹو کے اس افسانے میں پاگل خانہ ،مریضوں کی جاے پناہ یا علاج گا ہ نہیں،منحرفین کا مستقر ہے!یہ وہ سب لوگ ہیں جو اپنے عہد کے ’خداؤں‘سے الگ اور انحراف پسندانہ زاویہ نگاہ رکھتے ہیں۔ان میں بھی’خدا‘ بننے کی صلاحیت ہے اور اسی بنا پر قید ہیں۔افسانے میں یہ Mythosمحض اتفاق سے پیش نہیں ہواکہ’’ ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندستان میں تو اس نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا’وہ پاکستان میں ہے نہ ہندستان میں ۔اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا۔‘‘آخر پاگل پن میں خدا کے ساتھ تماثل کیوں؟یقینااس کی گہری نفسیاتی اور ثقافتی وجہ ہے۔ پاگل پن میں ’اختیار اور اقتدار ‘ کی ثقافتی علامتیں ،نفسیاتی صداقت بن کر اپنا اظہار کرتی ہیں۔ڈیوڈ کوپر نے میثل فوکو کی معروف کتاب پاگل پن اور تہذیب کے پیش لفظ میں برسبیلِ تذکرہ نہیں ، سوچ سمجھ کرلکھا ہے کہ

"Madness, for instance, is a matter of voicing the realization that I am
(or you are) Christ."
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تمام پاگل تقسیم کے واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔اور ایک متبادل نقطہِ نظر (Counter View) پیش کرتے ہیں ۔یہ نقطہِ نظراس عہد کی سماجی اور سیاسی تاریخ کے اس خلا کو بھرتاہے ،جو اس عہد کے خداؤں نے اپنے فیصلوں کے ذریعے پیدا کر دیا تھا۔یہ پاگل اس عہد کی تاریخ کا متبادل بیانیہ لکھتے ہیں ۔ اور اس بیانیے کا ہیرو بشن سنگھ ہے!

بشن سنگھ کے پاگل پن کے بیانیے کا تجزیہ کیا جاے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذہنی مریض نہیں ،ایک دیدہ ور (Visionary) ہے، مگر ایک ایسا دیدہ ور جس کی دیدہ وری اور بصیرت،اپنے لسانی تشکیلی مرحلے میں مسخ ہو گئی ہے۔چوں کہ اس کی دیدہ وری اپنی ’وجودیاتی سطح‘پر سلامت ہے،اس لیے وہ اسے کام میں لاتا اور اس کی روشنی میں فیصلے بھی کرتا ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت اس کا آخری اقدام ہے۔زمین کے اس ٹکڑے پر اوندھے منھ گرنا ،جس کا کوئی نام نہیں ہوتا اور جس کے دونوں اطراف دو نئے ممالک ہیں، اس کا اختیاری فیصلہ تھا۔اور یہی فیصلہ دراصل اس بحران سے نکلنے کا واحد حل تھا ،جس میں بشن سنگھ تقسیم کی خبر سننے کے بعد گرفتار ہو گیا تھا۔
بشن سنگھ کے پاگل پن کے محرکات افسانے میں مذکور نہیں ہیں،بس یہ بتایا گیا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کئی زمینیں تھیں۔اچھا کھاتاپیتا زمیندار تھاکہ اچانک دماغ الٹ گیا۔اس کے دماغ کے الٹنے کے واقعے کو پندرہ پرس قبل بتایا گیا ہے۔اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے رشتہ دار وں نے اس کی زمینوں پر قابض ہونے کے لیے اسے پاگل بنا کر،اسے موٹی موٹی زنجیریں پہنا کر پاگل خانے چھوڑ گئے ہوں۔ہمارے یہاں ایسا اکثر ہوتا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ باتیں بشن سنگھ کے اس جملے میں نشانیاتی تجسیم پا گئی ہیں جو وہ اکثر بولتا ہے۔’’ اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لا لٹین ‘‘۔یہ بیان افسانے میں موتف کا درجہ رکھتا ہے۔اس بیان کو ڈی کوڈ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ

شدید جذباتی کیفیت میں ادا کیا گیا ،بے ربط اور بے معنی جملہ ہے۔اصل یہ ہے کہ یہ بے ربط تو ہے،بے معنی نہیں۔اس میں شعورِ عامہ کی سیدھی منطقی اور لسانی لکیر کو توڑا گیا ہے۔ اور یہ حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے بشن سنگھ اپنی دیدہ وری کو سلامت رکھنے میں کام یاب ہوتا ہے۔پہلے یہی دیکھیے کہ وہ اس جملے کا اظہار ایک سے انداز میں کرتا ہے۔اس کے بے ربط جملے کی لسانی ترتیب قایم رہتی ہے اور جب وہ اس جملے کے آخر میں حک و اضافہ کرتا ہے تو یہ بھی معنی خیز ہوتا ہے۔
غور کریں تو ’’اوپڑ دی گڑ گڑ ‘‘کے الفاظ ایسے صوتیوں کا مجموعہ ہیں،جن کے معانی زبان کی سیمانٹکس کے بجاے محض اس کے صوتی اثرات سے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔اور یہ اثرات تشدّد کے ہیں۔یہ الفاظ بشن سنگھ کو پہنائی گئی موٹی موٹی زنجیروں سے واضح کنایاتی رشتہ رکھتے ہیں۔بے
دھیانا کا لفظ ان بے بصر لوگوں کے لیے ہے جو بشن سنگھ کی بصیرت کے ادراک سے قا صر ہی نہیں ،اس کے مخا لف بھی ہیں۔ابتدا میں یہ بے بصر لوگ اس کے رشتہ دار ہیں ،جو اسے پاگل خانے چھوڑ گئے تھے اور ہر مہینے اس سے ملاقات کی غرض سے آتے تھے۔اور بعد میں وہ لوگ جو اسے سرحد پر لے جاتے ہیں ۔منگ ،بشن سنگھ کی روح کے مطا لبے کا اعلامیہ ہے۔وال اس دیوار کا سیدھا سادا سگنی فائر ہے ،جو دو ملکوں،دلوں اور روحوں کے درمیان کھینچی گئی تھی۔لالٹین کو بغیر کسی ردو کد کے بشن سنگھ کی روح میں روشن دیے کا استعارہ قرار دیا جاسکتا ہے۔بشن سنگھ کی روح کا سب سے بڑا مطالبہ ہی یہ ہے کہ یہ دیا نہ بجھے ۔ظاہر ہے یہ بات افسانے میں براہ راست نہیں کہی گئی ۔دیکھیے :بشن سنگھ کے جملے یا افسانے کے موتف میں جب بھی تبدیلی ہوتی ہے ،وہ اس کے آخری حصے میں ہوتی ہے۔صرف لالٹین کا لفظ بے دخل ہوتا ہے۔غور کیجیے اس کو بے دخل کون سے الفاظ کرتے ہیں۔پاکستان گورنمنٹ اورگورو جی خالصہ اینڈ واہے گوروجی کی فتح۔لالٹین کی بے دخلی پہلی با ر اس وقت ہوتی ہے جب پاکستان گورنمنٹ اسے سرحد پار بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے۔اور دوسری بار جب اسے خدا بننے والا پاگل کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جگہ کا تعین اس لیے نہیں کر سکا کہ وہ بہت مصروف تھااور اسے بے شمار حکم دینے تھے۔لہٰذا لفظ لالٹین کی Displacement کا محرک دونوں جگہ ’طاقت‘ ہے:سیاسی اور مذہبی طاقت۔افسانے میں بشن سنگھ کا بہ طور ہیر وکارنامہ یہ ہے کہ وہ طاقت کی ان دونوں صورتوں کے آگے جھکنے سے انکار کرتا

ہے۔یعنی اپنی روح میں روشن لالٹین کی حفاظت اپنی جان پر کھیل کر کرتا ہے۔اور ایک ایسے انداز میں اپنی جان دیتا ہے ،جس کی علامتی معنویت گہری ہے،اتنی ہی گہری جتنی ایڈی پس کے آنکھیں پھوڑنے کی ہے۔اس کا پندرہ برس تک اپنے پاؤں پر کھڑا رہنا ،اس کی استقامت کو ہی ظاہر کرتا ہے۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہاپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے روز بشن سنگھ کیوں اچھی طرح نہاتا تھا ،تیل لگا کر کنگھا کرتا تھا اور اپنے وہ کپڑے پہنتا تھا جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا؟اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنی (یا اپنے موقف) کی استقامت کا اعلان ان کے سامنے کرتا تھا ۔پاگلوں کی ایک قسم مالیخولیا کی ہوتی ہے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مینیا قسم کے پاگلوں کے برعکس اپنی قوت متصورہ کے انتشار کا شکار نہیں ہوتے۔بشن سنگھ بھی انتشار کا شکار نہیں۔اگر ہوتا تو اس کی حرکات اور بیانات میں اس انتشارکا ظہار ضرور ہوتا۔ اس کے کردار کی استقامت ہی خاردار تاروں پر گر کر جان دینے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
اب اس افسانے کے تھیم کی تعمیم کریں تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں:
*آدمی اپنے وجود کی شناخت ’فطری‘انداز میں کرتا ہے۔اس کی دھرتی اور اس سے وابستہ کلچر اسے فطری طریق سے پہچان دیتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں وجود کی شناخت کا عمل فلسفیانہ اور تجریدی نہیں۔
*وجود کی شناخت جب فطری طریق سے ہو تو اس کا تحفظ انسان کی سب سے بڑی وجودی ذمے داری بن جاتا ہے۔فلسفیانہ یا تجریدی انداز میں طے کی گئی اپنی شناخت پر سمجھوتا کیا جاسکتا ہے، اس میں تبدیلی کی جاسکتی،اس کی جگہ شناخت کا کوئی دوسرا متن یا ورژن قبول کیا جاسکتا ہے۔یعنی اس صورت میں طاقت کی کسی شکل کے آگے جھکا جا سکتا ہے،مگر ’فطری طریق‘ سے حاصل کی گئی شناخت ہر نوع کی طاقت کے آگے جھکنے سے انکار کرتی ہے۔
یہ ’’اصول‘‘ ظاہر ہیں ،افسانے کے داخلی تناظر کے پابند ہیں۔انھیں آفاقی اور لا زمانی اصولوں کے طور پر پیش کرناایک جسارت ہی ہو گی۔افسانے کا داخلی تناظر نو آبادیاتی ملک کی آزادی اور تقسیم ہے۔لہٰذا وجودی شناخت کے یہ اصول اسی تناظر میں تشکیل پاتے اور اپنی معنویت
متعین کرتے ہیں۔اہم ترین بات یہ ہے کہ اس اصول کا جتنا مستند (اپنے تناظر کے اندر)علم یہ افسانوی بیانیہ مہیا کرتا ہے،کوئی دوسرا متن مہیا کرنے کا اوّل دعوا نہیں کر سکتااور اگر کرتا ہے تو اسے منطقی اور تجربی استناد میں سے محض ایک حاصل ہوتا ہے۔

اب آئیڈیالوجی!
اردو کے بیش تر مابعد جدیدنقاد وں کی یہ راے گونج پیدا کر رہی ہے کہ ہر ادبی متن آئیڈیالوجیکل ہوتا ہے۔اس باب میں ان کی دلیل یہ ہے کہ آئیڈیالوجی زبان میں لکھی گئی ہوتی ہے اور ادبی متن چوں کہ زبان کے ذریعے قایم ہوتا ہے ،اس لیے اس میں آئیڈیالوجی کا عمل دخل لازمی ہے۔بہ ظاہر یہ راے ٹھیک ٹھاک وزنی لگتی ہے،مگر اصل میں یہ آئیڈیالوجی کی نوعیت اور
کارفرمائی کی پے چیدہ صورتوں سے لاعلمی ظاہر کرتی ہے۔دیکھیے،اگر آئیڈیالوجی زبان میں لکھی گئی ہے تو پھر اس کا عمل دخل ہر قسم کے لسانی اظہار میں ( ادبی ،صحافتی یا عام روزمرہ )ہونا چاہیے۔اور اس بات کو قبول کرنے کا مطلب اپنی آزادی کے ہر امکان کا انکار اور یہ تسلیم کرنا ہے کہ پوری سماجی اور ذہنی زندگی آئیڈیالوجی کے ناقابلِ شکست شکنجے میں گرفتار ہے۔ آئیڈیالوجی زبان میں ہی لکھی ہوتی،مگر پوری زبان میں نہیں،اس کی بعض صورتوں میں لکھی ہوتی ہے۔خاص طور پر ان صورتوں میں ،جن میں اشیا،اشخاص اور تصورات کے سلسلے میں ایک ترجیحی ،اقداری سلسلہ ،بیّن یا مخفی طور پر موجود ہو،یا ان صورتوں میں،جہاں چیزوں کو تاریخی اور اسرار آمیز بنا کر پیش کیا گیا ہو۔اگر کوئی افسانہ نگار زبان کی انھی صورتوں کو بروے کار لاے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس نے آئیڈیالوجی کو ہی پیش کیا ہے۔بیش تر ترقی پسند اور جدید؍علامتی افسانہ اس اعتبار سے آئیڈیالوجیکل ہے کہ اس میں زبان کی مخصوص اقداری صورتوں کو کام میں لایا گیا ہے ۔تاہم افسانے میں آئیڈیالوجی کی پیش کش کا ایک اور انداز بھی ہے۔اس میں آئیڈیالوجی کی ترجمانی کے بجاے اسے اور اس کی حکمت عملی کو منکشف کیا جاتا ہے۔پہلی صورت میں افسانہ نگار آئیڈیالوجی کو مستحکم کرتا ہے،خواہ وہ اس سے واقف ہو یا نہ ہو۔اور دوسری صورت میں وہ آئیڈیالوجی کی ’’چیرہ دستیوں‘‘ کا پردہ چاک کرتا ہے۔اس کی قابلِ رشک مثال پریم چند کا کفن ہے!
آئیڈیالوجیکل افسانوی متن بھی ’’ سٹوری‘‘ اور ’’ ڈسکورس‘‘کی ثنویت رکھتا ہے۔اورآئیڈیالوجیکل مطالعے میں دونوںیکساں طور پر اہم ہوتے ہیں۔کبھی صرف کہانی آئیڈیالوجی کو پیش یا منکشف کر دیتی ہے اور کبھی ڈسکورس کے غائر تجزیے سے ہی آئیڈیالوجی تک پہنچا جا سکتا ہے۔اور کبھی دونوں کو برابر اہمیت دینا پڑتی ہے۔ کفن میں دونوں یکساں اہم ہیں۔
کفن ہمہ بین واحد غائب کے ’’نقطہِ نظر ‘‘میں لکھا گیا افسانہ ہے ۔اصولی طور پر یہ نقطِ نظراس بیانیے کے لیے موزوں ترین ہے،جس میں راوی خود کو غیر جانب دار رکھنا چاہتا اور افسانوی عمل کو یہ آزادی دینا چاہتا ہے کہ وہ خود اپنی منطق کے تحت جاری رہے۔عام طور پر یہ نقطہِ نظر سماجی نوعیت کے بیانیوں میں اختیار کیا جاتاہے۔اور جہاں بیانیے کی نوعیت شخصی ہو یا سماجی بیانیے کو شخصی تجربے کے استناد کے ساتھ پیش کرنا مقصود ہو وہاں واحد متکلم کا ’’نقطہِ نظر‘‘ برتا جاتا ہے۔مگر ضروری نہیں کہ افسانہ نگار اس اصولی بات کا لحاظ رکھیں۔کفن اگرچہ واحد غائب کے نقطہِ
نظر میں لکھا گیا ہے اور اس سماجی بیانیے کے لیے یہی موزوں بھی تھا،مگر اس کا کیا کیا جاے کہ بیانیے میں راوی کئی مقامات پر خود کو غیر جانب دار نہیں رکھ پاتا ،مداخلت کرتا اور افسانوی عمل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے،جو ایک دوسرے انداز میں آئیڈیالوجی کو افسانے پر مسلط کرنے کی کوشش ہے۔مثلاًمادھو اور گھیسو کے کرداروں کی وضاحت میں راوی کا یہ بیان اور خاص طور پر اس کا پہلا لفظ:’’ کاش دونوں سادھو ہوتے تو انھیں قناعت اور توکل کے لیے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔‘‘راوی کی اس خواہش کے زمرے میں آتا ہے ،جو ان دونوں کی بد تر حالت کے بدلنے کے ضمن میں وہ اپنے دل میں رکھتا ہے۔ نیز وہ سادھووں کو ایک ترجیحی مقام دیتا ہے۔اسی طرح مادھو اور گھیسو کی ذہنیت کے تجزیے میں راوی کا یہ کہنا بھی افسانوی عمل میں مداخلت ہے:’’ ہم تو کہیں گے کہ گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔‘‘ ۔۔۔ اس لیے کہ بیان کنندہ نہ صرف دو طبقات کا ترجیحی ،اقداری بیانیہ پیش کرتا ہے بلکہ طبقات کے لیے جن صفات (تہی دماغ ،فتنہ پرداز، شاطر)کا استعمال کرتا ہے ،وہ بھی غیر جانب دارانہ نہیں ، اقداری ہیں۔یہ کفن کے قاری کو اصل افسانوی عمل سے باہر کرداروں کے بارے میں راے قایم کرنے ترغیب دیتی ہیں۔
عام طور پر سمجھا گیا ہے کہ واحد غائب کے بیانیوں میں بیان کنندہ کی مداخلت کا امکان زیادہ ہوتا اور واحد متکلم کے بیانیوں میں یہ امکان کم ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ امکان دونوں جگہ یکساں ہے۔مداخلت،تیکنیکی طور پر متکلم یا غائب کا وہ بیان،وضاحت اور تعبیر ہے جو بنیا دی افسانوی منطق کے لیے زاید اور غیر ضروری ہی نہ ہوں،اسے متاثر بھی کرتی ہوں۔بیدی کا گرم کوٹ واحد متکلم میں لکھا گیا ہے،مگر اس میں بھی دو ایک مقامات پر متکلم مداخلت کا مرتکب ہوتا ہے۔مثلاً اس افسانے کا متکلم ؍راوی ، گرم کوٹ کی خواہش کرتا ہے ۔یہ خواہش جس محرک (دوسروں کے سوٹ )کے تحت پیدا ہوتی ہے ،اس کا تجزیہ بھی کرتا ہے ۔وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ نئے کوٹ کی خواہش ،دوسروں کے نئے کوٹ دیکھ کر ہی پیدا ہوتی ہے۔وہ یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ اسے رفعتِ ذہنی سے زیادہ ورسٹڈ پسند ہے۔اس کے باوجود اس کا یہ تبصرہ’’ نئے نئے سوٹ پہننااور خوب شان سے رہنا ہمارے افلاس کا بدیہی ثبوت ہے۔‘‘ناگوار حد تک غیر ضروری تبصرے کی ذیل میں آتا ہے۔
بہ ہر کیف ،ابتدائی صفحات پر راوی کی مداخلت کے بعداورآگے کفن آئیڈیالوجی کو منکشف کرتا ہے، بنیادی افسانوی منطق کو پورے فنی وقار کے ساتھ قایم رکھتے ہوے! کفن کا موضوع ’’ بنیادی انسانی خواہش ‘‘ ہے۔وہ بنیادی خواہش ،جو حقیقی نہیں،مگر اسے کچھ ایسے تاریخی عمل کے ذریعے سماج میں رائج کر دیا گیا ہے کہ لوگ اسے فطری سمجھتے اور خود کو اس کے سپرد کر دیتے ہیں۔یہی نہیں وہ اس خواہش کا ایسا اسرار آمیز تصور بھی رکھتے ہیں کہ اس کی تکمیل کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد قرار دیتے ہیں۔اور اسی بر بس نہیں ،وہ اپنی زندگی کے اس بڑے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی دست رس میں اور دست رس سے باہر،ہر چیز کوداؤ پر لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔اور جب ان کی مراد بر آتی ہے تو وہ ’’ارتفاع ‘‘ کے غیر معمولی تجربے سے بھی گزرتے ہیں۔اور اس سارے عمل میں وہ بنیادی خواہش کے حقیقی اور آئیڈیالوجیکل ہونے کی رمز سے نا آگاہ رہتے ہیں۔واضح رہے کہ یہاں سوال آئیڈیالوجی کے چھوٹے بڑے ہونے کا نہیں ،اس کی کارکردگی کا ہے۔بعض اوقات آئیڈیالوجی بڑی ہوتی ،وسیع انسانی طبقے کی حقیقی فلاح کی ضامن ہوتی ہے اور کبھی یہ چھوٹی ہوتی اور ایک اقلیتی گرو ہ کے وقتی مفادات کا ایجنڈا رکھتی ہے،دوسروں کے مفادات کی قیمت پر ۔یہی صورت ادبی آئیڈیالوجی کی ہوتی ہے۔بہ ہر کیف ان سب صورتوں میں اس کی کارکردگی یکساں ہوتی ہے۔جو لوگ اور ادبا آئیڈیالوجی کے زیرِ اثر ہوتے ہیں ،وہ اسے ’حقیقی انسانی صورتِ حال ‘ سمجھ کر اس سے معاملہ کرتے ہیں مگر انسانی شخصیت میںآئیڈیالوجی کے آسیب نما عمل دخل کو ادبی متن منکشف کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔کفن ایک ایسا ہی ادبی متن ہے!
کفن کی کہانی مادھو اور گھیسو(باپ بیٹے )کی اس بنیادی خواہش کی تکمیل کی کہانی ہے،جو ایک خاص سماجی نظام میں انسانوں کی ’’روح‘‘کی عظیم طلب بن جاتی ہے۔یہ ایک طبقاتی سماجی نظام ہے:محنت کرنے والوں اور محنت کا استحصال کرنے والوں پر مشتمل طبقاتی نظام،جو بہ ہر حال ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے،تاریخی قوتوں پر ایک طبقے کے اجارے کے نتیجے میں!ایسے نظام میں افراد کی زندگیوں کے مقاصد غالب طبقے کی آئیڈیالوجی کی رو سے ،طے ہوتے ہیں۔جب یہ مقاصد طے ہو جاتے ہیں ، آئیڈیالوجی مستحکم ہو جاتی ہے تو مذکورہ طبقاتی نظام کو ’فطری انداز ‘ میں مستحکم ہونے کی سہولت از خود حاصل ہو جاتی ہے۔۔۔مادھو اور گھیسو کی بنیادی خواہش یا ان کی ’’ روح‘‘ کی طلب بہ عینہٖ وہی ہے جو غالب طبقے نے بہ طور آئیڈیالوجی سماج میں رائج کی ہے۔:عیاشانہ اور مسرفانہ مسرت۔طبقاتی سماج میں اس مسرت کا حصول ،زندگی کی سب سے بڑی قدر بن جاتا ہے۔
مادھو اور گھیسو کے پاس کچھ نہیں ،جس کا استحصال کیا جاسکے، نہ مال اور نہ محنت !اور نہ وہ مرتبے اور اختیار کی طاقت ہے کہ وہ دوسروں کا استحصال کر سکیں۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ استحصال کی خواہش ہی سے بے نیاز ہیں۔وہ محروم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔اور لگتا ہے کہ ان کی محرومی ایک ایسا خلا بن گئی ہے جسے سماج کی حاوی آئیڈیالوجی بھر رہی ہے۔چناں چہ دیکھیے کہ وہ طبقاتی درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے پر ہیں، مگر اپنے نقطہِ نظر اور عمل کے اعتبار سے بالائی
طبقے میں شامل ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ان کا نقطہِ نظر اور عمل ٹھوس مادی بنیاد کی عدم موجودگی کے سبب ایک طرح کا باطل شعوراوربھونڈی نقل ہیں۔بدھیاکی تکلیف سے لاپروا ہو کرآلو بھون کر کھاتے چلے جانا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر کھانے کی حرص میں مبتلا ہونا،اور پھر کفن کے پیسوں سے دارو پینا، یہ بالائی طبقے کی استحصالی روشوں کی بھونڈی نقل ہی ہیں۔
آئیڈیالوجی کے نقطہِ نظر سے ،افسانے کا سب سے اہم حصّہ آخری ہے جہاں مادھو اور گھیسو شراب کے نشے میں دھت دکھاے گئے ہیں۔کفن کے پیسوں سے خریدی گئی شراب پی کر وہ ’’ ارتفاع‘‘ کے ’’غیر معمولی تجربے ‘‘سے گزرتے ہیں۔یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا تجربہ ہے،جس کی تمنا انھیں ہمیشہ رہی۔ ان کے بے ساختہ اظہارات سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی مراد ،عیاشانہ اور مسرفانہ مسرت کا حصول ہی ہے:’’ مرتے مرتے ہماری جندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کر گئی۔‘‘ اور ’’ہماری آتما پرسن ہو رہی ہے تو کیا اسے پن نہ ہو گا؟‘‘ ......یہ تجربہ ارتفاعی اس مفہوم میں ہے کہ وہ ’’ گہری مسرت‘‘ محسوس کرتے ہیں۔تاہم اتنی ہی گہری،جتنی ان کی ’’ روح‘‘ ہے۔نشان خاطر رہے کہ یہ ’’ مسرت‘‘ فقط شراب کے نشے سے طاری ہونے والی بے خودی کا دوسرا نام نہیں ہے،بلکہ ان کی داخلی بے داری کا نام ہے۔اصل یہ ہے کہ اس تجربے کے نتیجے میں ان کی ’’ بہترین ذہنی صلاحیتیں‘‘ بے دار ہو گئی ہیں اور وہ اس سماج پر تنقیدی راے ظاہر کرنے لگے ہیں،جس کی وہ خود پیدا وار ہیں۔
’’کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چھپڑ بھی نہ ملے اسے مرنے پرنیا کپھن چاہیے۔‘‘
’’کپھن لگانے سے کیا ملتا ۔آکھر کو جل ہی جاتاکچھ بہو کے ساتھ نہ جاتا۔‘‘
’’ہاں بیٹا بے کنٹھ میں جاے گی۔کسی کو ستایا نہیں،کسی کو دبایا نہیں....وہ بے کنٹھ میں نہ جاے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ کو دھونے کے لیے گنگا میں جاتے ہیں مندروں میں جل چڑھاتے ہیں۔ ‘‘
کہا جا سکتا ہے کہ یہ سارے تبصرے اس احساسِ گناہ کو مٹانے کی عقلی کوشش ہیں جوبدھیا کے کفن کے پیسوں کو عیاشی پر لٹانے کا نتیجہ تھا۔گویا ان کے اندر اس قدر تو انسانیت باقی ہے کہ وہ اپنے اعمال کے خیر یا بد پر مبنی ہونے کا احساس کرسکتے ہیں۔ایک حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے،مگر یہ بھی دیکھیے کہ وہ اپنے احساسِ گناہ کو مٹانے کے لیے کس قسم کی کوشش کر رہے ہیں؟ وہ اپنے عمل کی تعبیر کے ذریعے ایک التباس پیدا کر رہے ہیں ۔بالکل ویسا ہی التباس ،جیسا آئیڈیالوجی پیدا کرتی ہے۔آئیڈیالوجی ،کسی عقیدے،نظریے کو فطری اور تاریخی بنا کر پیش کرتی ہے،حالاں کہ وہ فطری اور تاریخی ہوتے نہیں۔لہٰذا ان کا فطری ہونا التباس ہی ہے۔کفن میں بھی باپ بیٹا اپنی گفت گو سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے ان میں انسانیت باقی اور وہ بنیادی انسانی اقدار کا علم رکھتے اور اپنے باطن میں ان کی پاس داری کی مبہم سہی،خواہش ضرور رکھتے ہیں۔شاید اپنے دگرگوں اور نا موافق حالات کی بنا پر وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں،لیکن یہ ساری کوشش ،واضح سماجی تجزیوں کے باوجود باپ بیٹے کے عمل کے’’عیاشانہ اور مسرفانہ پہلووں‘‘ کے کسی بھی درجے کے دفاع میں ناکام ہے۔تاہم ان پر تعبیر اور تبصرے کا ایک پردہ ضرور ڈالتی ہے!
Back to Conversion Tool

No comments:

Post a Comment