Wednesday, August 3, 2011

Paradigms of Urdu Research

اردو تحقیق کے پیراڈایم پر ایک نظر :
سماجی سائنسوں کے پیراڈایم کی روشنی میں

ڈاکٹر ناصر عباسّ نیر

ہر شعبہِ علم کے پاس ایک ’’نظر‘‘ ہوتی ہے۔ اسی نظر کی سیادت میں وہ اپنے مقاصد طے کرتا؛ ان مقاصد کے حصول میں کام یابی و ناکامی کا جایزہ لیتا اور مقاصد کی تکمیل کے بعد کے نتائج و مضمرات پر غور کرتا ہے۔ یہی ’’نظر‘‘ کسی شعبہِ علم کو شناخت دیتی، اس شناخت کو برقرار رکھنے کا سامان کرتی اور اس کی روایت تشکیل دیتی ہے۔ اس ’’نظر‘‘ کا کردار کسی شعبہِ علم کے سلسلے میں وہی ہوتا ہے جو زبان کے سلسلے میں گرامر کا ہے۔ نئی اصطلاح میں اسے پیراڈایم بھی کہا جا سکتا ہے۔ اردو تحقیق کے پاس بھی ’’نظر‘‘ ہے یا اردو تحقیق کی بھی ایک ’’گرامر‘‘ ہے اور اس کے پیراڈایم ہیں۔
اردو تحقیق کی ’’نظر‘‘ کے تعلق میں یہ بات فی الفور متوجہ کرتی ہے کہ اس ’’نظر‘‘ کا رُخ باہر کی طرف ہی رہا ہے؛ اردو تحقیق کے ’باطن‘ کی جانب یہ نظر نہیں پلٹی۔ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ اردو تحقیق اپنے پیراڈایم کی روشنی میں اردو کے تحقیقی نمونوں کا محاسبہ تو برابر کرتی رہی ہے اور ان نمونوں کے تسامحات کی نشان دہی، طے شدہ اصولوں اور اقدار کے تحت، کرتی رہی ہے، مگر اردو تحقیق نے ’’نظر‘‘ کہاں سے حاصل کی؛ اس ’’نظر‘‘ کی نہاد و نوعیت کیا ہے یا اردو تحقیق کے پیراڈایم کے علمیاتی مآخذ کیا ہیں، نیز اس نظر کی زد کہاں تک ہے یا پیراڈایم کے حدود کیا ہیں، اس طرف اردو تحقیق نے نگاہِ غلط انداز سے بھی نہیں دیکھا۔ حقیقت کی تلاش کو اردو تحقیق اپنا پہلا اور شاید آخری سروکار قرار دیتے نہیں تھکتی۔ حقیقت یا امرِ واقعہ کی صحت کے ضمن میں اردو تحقیق جس کدو کاوش اور جاں فشانی کا مظاہرہ کرتی ہے، وہ بے مثال ہے، مگر خود اردو تحقیق کی ’نظر‘ یا پیراڈایم کی حقیقت کیا ہے، اس کے ضمن میں اردو تحقیق نے تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اردو تحقیق کے نظری اور تجزیاتی مباحث میں یہ سوال شاید ہی اٹھایا گیا ہو کہ اردو کی ادبی تحقیق کے علمیاتی مآخذ کیا ہیں؟
اس صورتِ احوال کے اسباب اور نتائج دونوں پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ ایک بات بہ ہر حال واضح ہے کہ اردو تحقیق اپنی نظری بنیادوں کی نسبت خود شعوریت کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ اس کا ایک سبب تو خود اردو تحقیق کے پیراڈایم کا یہ اصول ہے کہ حقیقت معروضی ہے؛ باہر موجود ہے اور ہماری آپ کی پسند ناپسند سے بالاتر اور بے نیاز ہے۔ چناں چہ اردو تحقیق معروضی حقیقت کی تلاش میں ہی منہمک رہتی اور خود اپنی حقیقت (جس کی نوعیت موضوعی ہے) کی تلاش کو اپنے مقاصد کی فہرست میں شامل ہی نہیں کرتی۔ ایک اور سبب غالباً یہ ہے کہ اردو تحقیق نے (چند استثنائی مثالوں سے قطع نظر) تنقید سے خود کو فاصلے پر ہی نہیں رکھا، تنقید کی تحقیق میں شمولیت کو تنقید کی در اندازی قرار دیا ہے۔ تحقیق کے پیراڈایم کا مرکزی اصول اگر یہ ہے کہ حقیقت باہر اور معروضی طور پر موجود ہے، اس لیے وہ واحد اور غیر مشتبہ ہے تو تنقید کے پیراڈایم کا کلیدی اصول یہ ہے کہ حقیقت موضوعی ہے، اس لیے وہ واحد نہیں اور تعبیر طلب ہے۔ چوں کہ تنقید کا یہ بنیادی اصول اردو تحقیق کے مرکزی اصولِ حقیقت سے ٹکراتا ہے، اس لیے اردو تحقیق، تنقید سے، عام طور پر ُ نفور ہے۔ دونوں میں یہ فاصلہ قدرت کا منشا تھا نہ دونوں کی لازمی نفسی ضرورت، مگر یہ قایم کیا گیا اور ظاہر ہے، اتفاقاً قایم نہیں ہوا۔ ہر شعبہ علم کی ’نظر‘ سماجی قوتوں اور ثقافتی تدبیروں کی پیداوار ہوتی ہے، اس لیے اردو تحقیق کو عام طور پر تنقید سے فاصلے پر رکھا گیا ہے تو اس کے پیچھے کچھ سماجی قوتیں اور ثقافتی تدبیریں کارفرما ہیں۔ یہ قوتیں اور تدبیریں کیا ہیں، ان کی نشان دہی کے لیے ایک الگ مقالہ درکار ہے، فی الوقت یہ کہنا ہے کہ تحقیق اور تنقید کے حدود کو دو ملکوں کی سرحدوں کی طرح اٹل بنا دینے کا نقصان دونوں کو ہوا ہے اور تحقیق کو زیادہ ہوا ہے۔ تنقید کی تعبیر پسندی سے خود کو دور رکھ کر اردو تحقیق، تاریخ کے خاص محور پر طے ہونے والی نظری بنیادوں کو اٹل اور ناقابلِ تغیر سمجھنے اور ایک ہی ڈگر پر آنکھیں میچے رواں رہنے کے علاوہ ادب کے عمرانی اور ثقافتی سوالات / مسایل سے سرد مہری برتنے کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی غلط فہمی نہیں ہو سکتی کہ عمرانی اور ثقافتی سوالات کا تعلق محض تنقید سے ہے۔ حق یہ ہے کہ تحقیق کے لیے سوالات یہ زیادہ اہم ہیں۔ تاہم تحقیق کے لیے سوالات اُسی وقت اہم ہو سکتے ہیں، جب تحقیق کا ایک نیا مفہوم مرتب کیا جاے۔ اس وقت اردو میں تحقیق کا جو مفہوم رائج یا تحقیق کے جو پیراڈایم کارفرما ہیں، یہ عمرانی، ثقافتی اور فلسفیانہ سوالات کی دستک تک سننے کے روادار نہیں۔ دوسرے لفظوں میں ’’رائج اردو تحقیق‘‘ اپنے حال میں مست ہے۔ یہ کیفیت ’اپنی نظر‘ سے یا کسی دوسرے کی نظر سے، خود کو آنکنے اور خود آگاہ ہونے کے عمل سے سرد مہری کی حد تک لاتعلق ہوتی ہے۔
خود شعوریت اور خود آگاہی کا دوسرا مطلب اپنی ’’داخلی تاریخ‘‘ مرتب کرنا ہے۔ ہر شعبہِ علم اور فن کی خارجی اور داخلی تاریخ ہوتی ہے۔ خارجی تاریخ اگر ’واقعات‘ اور ان سے بننے والے پیٹرن سے مرتب ہوتی ہے تو داخلی تاریخ کا دوسرا نام پیراڈایم ہے۔ اردو تحقیق کی خارجی تاریخ کے جزوی بیانیے تو مل جاتے ہیں جو اردو تحقیق کی رفتار و سمت کی خبر دیتے ہیں (اس ضمن میں معین الدین عقیل کی کتاب ’’پاکستان میں اردو تحقیق : صورتِ حال اور تقاضے‘‘ اہم ہے) مگر اردو تحقیق کی داخلی تاریخ خود اردو تحقیق کا موضوع بننے میں کام یاب نہیں ہوئی۔ اس کا سبب خواہ اردو محققین کی فکر سے عمومی لاتعلقی میں تلاش کیا جاے یا ان کی سہل پسندی میں، دونوں صورتوں میں نتیجہ یہ ہے کہ اردو تحقیق اپنے پیراڈایم سے جتنا گہرا اطمینان محسوس کرتی ہے، دوسرے علوم کے پیراڈایم سے اتنی ہی بے نیازی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ تبدیلی و انحراف کی خواہش کی جگہ اٹوٹ وابستگی اور غیر مشروط مصالحت کی آرزو، اردو تحقیق میں عام ہوئی ہے۔ اگر کہیں تبدیلی و انحراف کا شائبہ محسوس ہوتا بھی ہے تو وہ اردو تحقیق کی ’نظر‘ یا پیراڈایم کے اندر ہی پانی کے بلبلے کی طرح نمودار ہوتا اور گم ہو جاتا ہے۔ اردو تحقیق میں تبدیلی و انحراف کا میلان عام طور پر رسمیات تحقیق میں ہے یا نئے دریافت کردہ متون یا پھر دریافت شدہ حقایق و متون کی صحت کے تعین کے مسئلے تک ہے۔
یہ صورتِ حال متقاضی ہے اس تحقیق کی، کہ اردو تحقیق کے پیراڈایم کیا ہیں اور ان کے مآخذ کیا ہیں؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی طرف اردو کی سندی اور غیر سندی تحقیق نے اب تک توجہ نہیں کی۔ کسی موضوع پر توجہ نہ دینے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لائق توجہ ہی نہیں۔ ممکن ہے بعض صورتوں میں اجتماعی بصیرت، کچھ موضوعات کو غیرضروری قرار دیتی اور لائق تحقیق نہ گردانتی ہو، مگر یہ طے کرنا کہاں آسان ہے کہ کہاں اجتماعی بصیرت کام کر رہی ہے؛ کہاں اجتماعی بے حسی گل کھلا رہی ہے اور کہاں سیاسی اور دانش ورانہ مقتدرہ اپنی اقتداری حیثیت کو بہ ہر صورت قایم رکھنے کے لیے نئے سوالات کی کونپلوں کے پھوٹنے کی ہر راہ مسدود کر رہی ہے۔ اردو تحقیق کی عمومی روایت کے پیش نظر آخری دو صورتیں ہی درست لگتی ہیں۔ اردو تحقیق کے مقتدرہ نے ان سوالات پر دروازے بند رکھے ہیں جن کی نوعیت سیاسی، عمرانی، فلسفیانہ اور ثقافتی ہے، مگر دروازے بند رکھنے سے سوالات کی چاپ ختم ہوتی ہے نہ دستک! یہ اور بات ہے کہ اپنے کانوں کو بند یا بہرہ کر لیا جاے۔


153

پیراڈایم سے مراد اعتقادات، اقدار، تکنیک اور طریق کار کا وہ ’’نظام‘‘ ہے، جسے ایک علمی گروہ کے ارکان تسلیم کرتے اور اس کے مطابق اپنی علمی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں۔(۱) پیراڈایم کا اظہار، کسی شعبہ علم کے نظری مباحث، اطلاقی نمونوں اور ان دونوں کے متعلق رایوں میں ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کسی علم کی نسبت جو کچھ کہا جاتا ہے، جس زاویے سے کہا جاتا ہے اور پھر جسے اور جس طور رو بہ عمل لایا جاتا ہے، وہ سب پیراڈایم کے تحت ہوتا ہے۔ نیز یہ پیراڈایم ہی ہوتا ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ تحقیق کیوں کر کی جاے، کن طریقوں اور کن سوالوں کو پیش نظر رکھا جاے۔ کس موضوع کو تحقیق کے قابل سمجھا جاے اور اس موضوع کی تحقیق کے لیے کس طریق کار کو اختیار کیا جاے؛ دورانِ تحقیق کس سوال کو ضروری سمجھا جاے؛ سوال رسمی ہو، لسانی نوعیت کا ہو یا فلسفیانہ قسم کا ہو، یا سوال کی جہت عمرانی و ثقافتی ہو یا سوال سرے سے اٹھایا ہی نہ جاے۔ نیز اپنی تحقیقات کے نتائج کی تعبیر کیوں کر کی جاے یا تعبیر کی طرف توجہ ہی نہ کی جاے؟ لہٰذا غور کریں تو پیراڈایم اگر ایک طرف قائدانہ کردار ادا کرتا ہے تو دوسری طرف کسی شعبہِ علم کو مخصوص صورتوں اور کلیوں میں محصور کرنے کا میلان بھی رکھتا ہے یعنی یہ کسی شعبہِ علم کو اگر شناخت دیتا ہے تو تعصب اور پابستگی کے سپرد کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ اسی لیے ہر شعبہِ علم کے پیراڈایم کا تنقیدی مطالعہ کرتے رہنا چاہیے۔ اسی مطالعے سے اس شعبہِ علم کی داخلی تاریخ مرتب ہوتی چلی جاتی ہے۔
پیراڈایم کی ان توضیحات کی روشنی میں اردو تحقیق کی تعریف، مقصد، طریق کار وغیرہ سے متعلق یہ بیانات دیکھیے :
’’(تحقیق) کا مطلب ہے حق کا ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ۔۔۔ کسی الجھے ہوے یا غیر معلوم مسئلہ کو حل کرنے کے لیے تمام ضروری ماخذ و مصادر کی پوری چھان بین کرکے غیر جانب داری سے صحیح نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔‘‘(۲)
’’تحقیق، سچ یا حقیقت کی دریافت کا عمل ہے۔‘‘(۳)
’’تحقیق کا مقصد نامعلوم حقایق کی تلاش اور معلوم حقایق کی توسیع یا ان کی خامیوں کی تصحیح ہے۔ ان دونوں کا نتیجہ حدودِ علم کی توسیع ہے اور حدودِ علم کی توسیع انسانی ترقی کا باعث ہے۔‘‘(۴)
’’ادبی محقق کے تین کام ہیں :
۱۔ نئے حقایق کی تلاش ۲۔ حقایق کی تصدیق یا تردید
۳۔ حقایق کی تشریح و تعبیر ‘‘(۵)
’’تحقیق کا مطمح نظر حقیقت کی جست جو اور واقعے کی صداقت کی تلاش ہے۔‘‘(۶)
اردو میں تحقیق کی تعریف و غایت سے متعلق بیانات میں غیرمعمولی مماثلت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ صورت کن لوگوں کو خوش آتی ہے! جو لوگ گہرائی اور تنوع کے طالب ہوتے اور ان دونوں کو علم کی ترقی کے لیے لازم سمجھتے ہیں، انھیں اردو تحقیق سے متعلق بیانات اور کلیوں کی تکرار سے خاصی وحشت ہوتی ہے اور وہ یہ سوچنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں کہ اردو تحقیق کے مقصد و منہاج کی توضیح کا عمل ایک پھول کے مضمون کو ایک دو رنگوں سے باندھنے ہی سے عبارت ہے۔ کسی دوسرے شعبہِ علم اور فن میں شاید ہی یہ صورت موجود ہو۔ ادب، تنقید، اصناف کی تعریف میں رنگا رنگی ملتی ہے، جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ان کے حدود اور ان کے مقاصد پر ایک سے زائد زاویوں سے نظر ڈالی گئی ہے، جب کہ اردو تحقیق کے ضمن میں بس ایک زاویے پر اکتفا کر لیا گیا ہے۔ اردو تحقیق کی مذکورہ صورت کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اردو تحقیق کی صورتِ حال میں علمیاتی اور اطلاقی دونوں سطحوں پر کوئی انقلاب، رونما نہیں ہوا؛ کوئی پیراڈایم شفٹ نہیں ہوا۔ اردو تحقیق کا ادارہ اوایل بیسویں صدی میں جن فکری اور اطلاقی بنیادوں پر قایم ہوا تھا، وہ ماشاء اللہ سلامت ہیں۔ بجا کہ رسمیات تحقیق میں خاصی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ حوالہ جاتی تحقیق اور تدوین میں بعض بے مثال کام ہوے ہیں، مگر یہ سب تحقیق کے مذکورہ اصولوں کو غیرمعمولی لیاقت و محنت سے بروے کار لانے کا نتیجہ ہیں۔ امتیاز علی عرشی، قاضی عبدالودود، رشید حسن خاں، مشفق خواجہ اور جمیل جالبی کے تدوینی کارنامے بےُ شبہ داد سے بالاتر ہیں۔ راقم کی بحث کا موضوع تدوین ہے نہ رسمیاتِ تحقیق، بلکہ اردو کی ادبی تحقیق کے وہ اصول یا پیراڈایم ہیں، جن کو اوپر درج کیا گیا ہے اور جو عام طور پر اردو کی سندی اور غیر سندی تحقیق (علاوہ تدوین) کی بنیاد کا کام دیتے رہے ہیں۔ غور کریں تو اردو کی ادبی تحقیق کے پیراڈایم محض دو اصولوں سے مرتب ہوے ہیں۔
۱۔ حقیقت کی تلاش
۲۔ حقیقت کی توسیع بذریعہ تصحیح و تصدیق
ہر چند ایک تیسرے اصول: حقیقت کی تعبیر کا ذکر کیا گیا ہے، مگر یہ براے بیت ہے۔ اوّل اس لیے کہ صرف چند ادبا اس کا ذکر کرتے ہیں، خصوصاً وہ جو تنقید بھی لکھتے ہیں۔ دوم جب یہ لوگ اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں تو تنقید کو تحقیق میں اس طور شامل کرتے ہیں کہ تنقید، تحقیق پر پیوند کی صورت محسوس ہوتی ہے اور پیوند بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ یعنی وہ کسی شاعر یا کسی قدیم متن کا تحقیقی تعارف پیش کرنے کے بعد اس پر تنقیدی راے دے دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں دونوں میں فاصلہ موجود رہتا ہے۔ تحقیق، تنقیدی راے کے بغیر، اپنی جگہ مکمل ہوتی ہے۔ اس کی مثال میں جملہ اہم تدوینی کارناموں کے مقدمے پیش کیے جا سکتے ہیں، جو ہر چند کتاب کے آغاز میں شامل ہوتے مگر لکھے آخر میں جاتے ہیں۔ ان مقدموں میں اصولِ تدوین، راہِ تدوین میں حایل مشکلات وغیرہ کی تفصیل کے علاوہ مدوّن کیے گئے متن پر تنقید و تبصرہ بھی شامل ہوتا ہے۔ سوم یہ کہ تنقید و تعبیر کو متذکرہ بالا دو اصولوں سے علمیاتی سطح پر جوڑنے یعنی حقیقت کی تعبیر اور تلاش کو، قدر اور طریق کار کی سطح پر یکساں ثابت کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش اب تک نہیں کی گئی۔
کچھ لوگوں نے حقیقت کی جگہ مسئلے کا ذکر بھی کیا ہے۔ مثلاً عبدالستار دلوی کے نزدیک ’’تحقیق کسی مسئلے کے قابلِ اعتماد حل اور صحیح نتائج تک پہنچنے کا وہ عمل ہے، جس میں ایک منظم طریق کار، حقایق کی تلاش، تجزیہ اور تفصیل کاری پوشیدہ ہوتی ہے۔(۷) لیکن یہاں بھی مسئلہ اپنی ماہیت میں حقیقت ہے۔ جب مسئلے کے ساتھ ہی حقایق کی تلاش کی پخ لگا دی جاے تو مسئلہ کسی سوال کے بجاے ایک امر واقعہ بن جاتا ہے، جو نامعلوم یا غلط بیانیوں میں ملفوف ہونے کی وجہ سے اُلجھن کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت کی تلاش اور حقیقت کی توسیع بذریعہ تصحیح و تصدیق ہی اردو تحقیق کے پیراڈایم ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اردو تحقیق میں حقیقت سے کیا مراد ہے اور اردو تحقیق نے حقیقت کی دریافت و تصدیق کو ہی اپنا مطمح نظر کیوں بنایا؟
ہر چند حقیقت کا لفظ اپنی مجرد حیثیت میں کسی متعین معنی کا حامل نہیں ہے۔ مختلف سیاق میں اس کا مفہوم مختلف ہو جاتا ہے۔ تاہم ’اصل‘ اور ’بنیاد‘ ایسے تلازمات ہر سیاق میں اس کے ہم رکاب ہوتے ہیں۔ گویا حقیقت کو فطرت، سماج، نفسیات یا مابعدالطبیعیات کسی سیاق میں استعمال کیا جاے، اس کے مفہوم میں اصلی و بنیادی ہونے کا تلازمہ شامل رہتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ سیاق کی تبدیلی سے حقیقت کا قدری تصور بدل جاتا ہے۔ یعنی سماجی حقیقت، سائنسی حقیقت، ادبی حقیقت اور مابعد الطبیعیاتی حقیقت، قدری پیمانے پر یکساں اہمیت کی حامل نہیں ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ’اقدار، سیاق میں ہیں، خود حقیقت میں نہیں۔
اگرچہ اردو تحقیق اعلانیہ اپنا تعلق ادبی حقیقت سے جوڑتی ہے اور قاضی عبدالودود کے لفظوں میں ’’تحقیق کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش (کرتی) ہے۔(۸) تو امر سے مراد ادبی امر ہی ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو تحقیق اس مفہوم میں ادبی تحقیق ہے کہ یہ کسی نہ کسی سطح پر ادب سے متعلق ہوتی ہے اور گو ادب میں ادیب، شاعر، ادبی تاریخ، زبان، ادبی متون کو عام طور پر شامل سمجھا گیا ہے، مگر ادبی تاریخ اور اس کے پہلو اردو تحقیق کا اہم موضوع رہے ہیں۔ چناں چہ تاریخی تحقیق ہی اردو تحقیق میں رائج ہوئی ہے۔ (بیانیہ تحقیق کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں) گیان چند کے بہ قول :
’’جہاں تک اردو کی ادبی تحقیق کا تعلق ہے، اس کا بھی یہی مقصد ہے کہ جن مصنّفین، جن اداروں، جن علاقوں، جن کتابوں اور متفرق تخلیقات کے بارے میں اب تک جو کچھ معلوم ہے، اس کی جانچ پڑتال کرکے اس کی غلط بیانیوں کی تصحیح کر دی جاے تاکہ غلط مواد کی بنا پر غلط فیصلے نہ صادر کر دیے جائیں۔‘‘(۹)
لہٰذا اردو تحقیق میں حقیقت سے مراد وہ صداقت ہے جو اردو کی ادبی تاریخ کے کسی محور پر بہ طور واقعے اور متن کے وجود میں آئی۔ واقعہ اور متن اپنی اصلی حالت میں موجود تھے، مگر کاتبوں کے قلم اور مورخوں کے بیانات نے دونوں کی اصلی حالت میں تبدیلی پیدا کر دی۔ تحقیق کا کام اسی اصلی حالت کی بازیافت ہے۔ اردو تحقیق نے بازیافت کے اس عمل میں غیرمعمولی محنت اور کاوش کا ثبوت دیا ہے۔ اس ضمن میں اردو تحقیق نے دیگر علوم سے بیش بہا مدد لی ہے، تاہم صرف ان علوم سے جو ادبی واقعے اور متن کی صحت و صداقت کے تعین میں مدد دیں۔ جیسے فارسی و عربی، تاریخ و سوانح اور لغت کا علم۔ ہرچند عروض، بیان و بدیع، فصاحت، منطق اور تصوف سے آگہی کو بھی اردو تحقیق کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے اور یہ شائبہ گزرتا ہے کہ محقق متن اور واقعے کی تشکیل میں شامل عناصر کو بھی سامنے لاے گا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان علوم کو بھی واقعے اور متن کی صحت کو غیرمشتبہ بنانے میں صرف کیا جاتا ہے، گویا ان علوم کی اپنی داخلی قدر کی مدد سے ’ادبی امر‘ کو روشن کرنے کے بجاے، ان علوم کے صرف انھی پہلووں سے رجوع کیا جاتا ہے، جو ادبی حقیقت کی صحت کا تعین کر سکیں اور تمام اشتباہات رفع کر سکیں۔
اردو تحقیق کے پیراڈایم میں اپنی اصل (Origin) کی بازیافت، اپنی اصل کے ساتھ جڑے رہنے اور اپنی اصل کی مخصوص شناخت کو استوار رکھنے کا رویہ کئی سطحوں پر موجود ہے۔ وجودیاتی؛ علمیاتی اور طریق کار، تینوں سطحوں پر یہ رویہ ملتا ہے۔ وجودیاتی (ontological) زاویے سے دیکھیں تو اردو تحقیق نے ان موضوعات کو شرفِ تحقیق بخشا ہے، جنھیں اردو/ مشرقی روایت اپنی اصل قرار دیتی ہے۔ حافظ محمود شیرانی، مولوی عبدالحق، قاضی عبدالودود، سید عبداللہ، رشید حسن خاں، گیان چند، وحید قریشی، جمیل جالبی اور معین الدین عقیل کی تحقیقات اردو کی اصل یعنی کلاسیکی روایت کی بازیافت ہی سے عبارت ہیں۔ اردو تحقیق کی خارجی اور داخلی دونوں تاریخوں سے یہ بات عیاں ہے کہ ’’اردو/مشرقی روایت‘‘ سے بالعموم وہ روایت مراد لی گئی ہے جس میں فارسی و عربی کی روایت لازمی عنصر کے طور پر شامل ہے۔ چوں کہ انیسویں صدی کے نصفِ آخر تک آتے آتے فارسی اُس اقتداری اور تہذیبی حیثیت سے محروم کر دی گئی تھی، جو اسے برصغیر میں پہلے حاصل تھی، اس لیے اب بھی اردو تحقیق کا محبوب ترین موضوع وہی ادوار ہیں، جب فارسی کو تہذیبی اقتدار حاصل تھا۔ ممکن ہے یہ بات نازک مزاج محققین پر گراں گزرے مگر یہ سچ ہے کہ جدید عہد (۲۰ویں صدی) اردو تحقیق کا زرخیز اور مقبول موضوع تاحال نہیں بنا۔ (یہاں سندی تحقیق استثنا ہے اور اس کا جو عمومی معیار ہے، وہ سب پر عیاں ہے)۔ اس کے جواب اور دفاع میں دو باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ابتدا سے انیسویں صدی تک کے زمانے کے کتنے ہی پہلو ابھی تشنہِ تحقیق ہیں اور اس سے پہلے کہ موجود آثار بھی معدوم ہو جائیں انھیں معرضِ تحقیق میں لایا جانا چاہیے۔ دوسری یہ بات کہ نوآبادیاتی عہد میں ہماری تاریخ اور تہذیب کو چوں کہ مسخ کیا گیا اس لیے اپنی ادبی تاریخ و روایت کے درست متون کو سامنے لانا ضروری ہے۔ دونوں باتیں برحق ہیں اور ان کی افادیت سے اُسی کو انکار ہو سکتا ہے جو ادب کی تاریخ اور روایت سے بے بہرہ ہو مگر سوال صرف یہ ہے کہ کیا ’’اردو / مشرقی روایت‘‘ کی بازیافت کے لیے یہی صورت ممکن اور ناگزیر تھی اور کسی دوسری صورت کی تلاش عبث ہے؟ نیز آخر کیا وجہ ہے کہ اُردو تحقیق کا عمومی ’’مائنڈ سیٹ‘‘ جدید عہد کے ادب، نظریات، سماجی سائنسی تصوراتِ تحقیق سے کوسوں دور کیوں ہے؟
علمیاتی (Epistemological) رُخ سے دیکھیں تو اُردو تحقیق اپنے بنیادی مفہوم کے تعین کے لیے لفظ تحقیق کی اصل یعنی اس کے مادے ح ق ق، جس سے لفظ حق بنا ہے اور حقیقت بھی _____ سے رجوع کیا گیا ہے۔ گو تحقیق کا مفہوم حقیقت تک رسائی سے کہیں زیادہ وسیع ہے، مگر اُردو تحقیق اپنی پیراڈایمی پابندیوں کے سبب غیرمشتبہ حقیقت تک رسائی کو ہی اپنی اصل ذمے داری خیال کرتی ہے۔
یہ حقیقت غیرمشتبہ تو ہے، ناقابلِ تغیر، اٹل، مطلق اور خود مکتفی بھی ہے۔ دیکھنے میں یہ کوئی ادبی امر؛ واقعات و سنین اور متن ہو سکتے ہیں، مگر ان کا تصور ایک ایسی حقیقت کے طور پر کیا جاتا ہے جو اپنی آزاد حیثیت میں موجود ہے، جو مطلق ہے ۔ ممکن ہے، بعض کو یہ بات تسلیم کرنے میں تامل ہو، مگر اُردو تحقیق کی مجموعی روایت یہ باور کراتی ہے کہ اُردو تحقیق میں حقیقت کا تصور رفعت اور ماورائیت کے ان عناصر میں ملفوف ہے، جو اپنی اصل میں مابعد الطبیعیاتی ہیں، یعنی مستقل قدر اور غیرمبدّل ماہیت کے حامل ہیں۔ اسی بات نے اُردو تحقیق کی علمیات کو ایک جامع اور کلی سچائی کا متبادل بھی قرار دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اردو محققین شاید جاں توڑ محنت اور جست جوے مسلسل کا مظاہرہ نہ کر سکتے۔ آدمی اس شے کے حصول میں کبھی جاں فشانی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جو اس کے تصور میں عظیم سچائی کے طور پر نہ آے۔ یہ کم و بیش آفاقی کلیہ ہے کہ ہم اپنی بہترین توانائیاں، اپنا اخلاص اسی شے کے لیے وقت کرتے ہیں، جو ہمارے نزدیک بہترین ہو لہٰذا اُردو محققین کی جاں فشانی کا محرک اُردو تحقیق کی علمیات کے مذکورہ پہلو میں تلاش کرنا چاہیے۔ حق یہ ہے کہ اُردو تحقیق میں کوئی ادبی امر قدری اور کیفیتی سطح پر چھوٹا بڑا نہیں ہے۔ اردو/ مشرقی روایت سے متعلق ہر امر ایک سی توجہ اور محنت کے ساتھ قابلِ تحقیق ہے۔ قاضی عبدالودود کی یہ راے اسی تناظر میں ہے کہ ’’ہر بات یکساں اہمیت نہیں رکھتی، لیکن بات اہم ہو یا غیر اہم، محقق کو حقِ تحقیق ادا کرنا چاہیے۔‘‘(۱۰) دوسرے لفظوں میں اُردو تحقیق کی نظر میں چوں کہ حقیقت ایک کلی سچائی کے تصور کی حامل ہے، اس لیے ہماری روایت کا کوئی جز قدری و کیفیتی سطح پر کم تر نہیں ہے۔ وہ ہماری روایت و تاریخ کے کسی نہ کسی رخنے کو پُر کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ رخنہ محقق کو نظر آ رہا ہو۔ ممکن ہے یہ رخنہ مستقبل کے محقق، مورّخ یا نقاد کو دکھائی دے۔ پس محقق مستقبل شناس ہو نہ ہو، مستقبل بیں ضرور ہو۔
اسے اُردو تحقیق کے علمیاتی رُخ کا ہی شاخسانہ کہنا چاہیے کہ حقیقت مستقل قدر اور غیر مبدل ماہیت کی حامل ہونے کی وجہ سے تعبیر و تنقید سے بے نیاز ہے۔ تعبیر طلب وہ حقیقت ہوتی ہے، جو موضوعی ہو؛ ابہام میں لپٹی ہو؛ ایک مسئلے یا سوال کی صورت خود کو پیش کرے اور سب سے بڑھ کر اپنی نہاد میں مادی ہو۔ مادی حقیقت تغیر پذیر اور غیر مستقل ہوتی ہے۔ وہ خود مکتفی نہیں ہوتی، زمانی و مکانی عناصر کے سہارے قایم ہوتی اور انھی کے پھیر میں اپنے وجود کا سراغ پاتی ہے ۔ اس کے غیر مستقل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ معنی کی حامل تو ہے، مگر یہ معنی مستقل نہیں ہے۔ مابعدالطبیعیاتی حقیقت کا معنی مستقل ہونے کی وجہ سے ہی تعبیر کی ضرورت سے بے نیاز ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کی شرح کی جا سکتی ہے اور شرح کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ مستقل معنی/جوہر کو وضاحتاً باور کرایا جا سکے۔ شرحوں میں اختلاف ہوتا ہے، مگر یہ اختلاف مقصد میں نہیں، طریق کار میں ہوتا ہے _____ مادی حقیقت کا معنی غیر مستقل ہونے کی وجہ سے ہی تعبیر طلب ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تحقیق کسی ’’مادی حقیقت‘‘ کی جست جو کو اپنا مطمحِ نظر بناے گی تو اس کی تعبیر کو اپنی علمیات میں شامل کرنے پر مجبور ہوگی۔ ’مادی حقیقت کاغیر مستقل معنی‘ خود کو ایک ابہام، سوال یا مسئلے کی صورت پیش کرتا ہے۔ اردو تحقیق میں اگر سوال اور مسئلہ ، بنیاد کی صورت موجود نہیں ہیں تو وجہ ظاہر ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اردو تحقیق نے کسی سوال پر بنیاد نہیں رکھی اور اگر رکھی ہے تو وہ سوال کسی ذہنی، عمرانی، ثقافتی مسئلے سے متعلق نہیں بلکہ ایک غیرمشتبہ صداقت کے راستے میں حایل اُلجھن کی صورت ہے۔ اس بات کی وضاحت میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی زبانی یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے:
’’تذکرہ ہندی میں مصحفی نے لکھا ہے کہ جب عہدِ محمد شاہ میں ولی دکنی کا دیوان دہلی پہنچا تو اس کی غزلیں چھوٹے بڑوں کی زبان پر جاری ہو گئیں اور لوگ ولی کے ریختے گلی کوچوں میں پڑھنے لگے۔ کام کرتے ہوے تجسّس پیدا ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے، دیوان ولی شمالی ہند پہنچے اور وہ آگ کی طرح گلی کوچوں میں پھیل جاے؟ اس کا جواب کسی تذکرے یا کسی اور دیوان یا کسی ادبی حوالے میں نہیں ملا۔ اتفاق سے اسی زمانے میں مرزا محمد حسین قتیل کی تصنیف ’ہفت تماشا‘ پڑھ رہا تھا۔ اس میں قتیل نے ایک جگہ لکھا تھا کہ کائستھ ہولی کے زمانے میں، نشے کی حالت میں، گلستان، بوستان اور ولی کے ریختے پڑھتے ہوے گلی کوچوں سے گزرتے تھے۔ تذکروں میں صرف مصحفی نے شاہ حاتم کے حوالے سے یہ بات لکھی تھی جس کی تصدیق ایک غیر ادبی ماخذ سے ہوئی، تو یہ طریقہ کار تحقیق کے لیے مفید بھی ہے اور مناسب بھی۔‘‘(۱۱)
غور کیجیے : جالبی صاحب نے اپنی تحقیق کی بنیاد تو ایک سوال پر رکھی، مگر یہ سوال عمرانی، ثقافتی یا جمالیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک امر کی صداقت کی تائید و تصدیق، کسی اور ماخذ سے کرنے کے تجسّس کی صورت ہے۔ اردو تحقیق کے موجودہ پیراڈایم میں یہی سوال پیدا ہو سکتا ہے۔ آپ اردو تحقیق کے جملہ معیاری نمونے دیکھ ڈالیے، آپ کو اسی نوع کے ’’سوالات‘‘ ملیں گے۔ جن تحقیقی نمونوں میں کسی دوسرے محقق کے تسامحات کی نشان دہی کی گئی ہے (شیرانی کی تنقید شعر العجم، رشید حسن خاں کاجمیل جالبی کی تاریخ پر مقالہ، گیان چند کی اردو کی ادبی تاریخیں) ان میں بھی اس وضع کے ’’سوالات‘‘ اٹھاے گئے ہیں۔ کسی دوسرے پیراڈایم میں یہ سوال نہیں بلکہ ایک امرِ واقعہ کی تصدیق کا سیدھا سادا معاملہ ہوتا۔ سوال اس کے بعد پیدا ہوتا۔ اغلب ہے کہ ولی کے دیوان کی شہرت کو ایک ایسے تہذیبی اور جمالیاتی سوال کی صورت لیا جاتا، جو کائستھوں میں اشرافیہ فارسی اور عوامی ریختے کی عوامی و اجتماعی سطح پر مقبولیت کے اسباب و اثرات پر روشنی ڈالتا۔ اس سوال کے جواب کے لیے بھی دیگر اور غیر ادبی مآخذ تک رسائی ہوتی اور جگہ جگہ تعبیر و تجزیے کی ضرورت پیش آتی۔
راقم کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اردو تحقیق کا موجودہ پیراڈایم تعبیر و تجزیے اور تنقید کی نہ گنجایش رکھتا ہے اور نہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ڈاکٹر جمیل جالبی، خلیق انجم، تبسم کاشمیری(۱۲) جب تحقیق کے لیے تنقید کو لازم گردانتے ہیں تو اس میں محض تنقید کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے اور لازماً تنقید کو تحقیق کے بعد رکھا جاتا ہے کہ اگر تنقید اپنی بنیاد تحقیق پر رکھے گی تو بھلا تنقید کا ہوگا؛ تنقید درست فیصلے کر سکے گی۔ یعنی تنقید اگر تحقیق سے اغماض برتے گی تو گویا منہ کی کھاے گی۔ تحقیق، تنقید کے بغیر بھی اپنی مستقل بالذات حیثیت کو قایم رکھے گی۔ دوسرے لفظوں میں تحقیق اور تنقید کے اس رشتے میں، دونوں میں ایک فاصلہ لازماً موجود رہتا ہے۔ تنقید تحقیق کے خون میں شامل نہیں ہوتی، اس کا ’’پیراسائیٹ‘‘ ثابت ہوتی ہے۔ اس سے تنقید کا بھلا ہو یا نہ ہو، اردو محققین کی اس انا کی تسکین ضرور ہوتی ہے، جو نقادوں کو بالعموم اپنا حریف گردانتی ہے۔ مجنوں گورکھ پوری کے اس تحقیقی سہو کو اسی لیے تفاخر کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے، جس میں مجنوں نے امیر شاگردِ قائم کا شعر میرؔ سے منسوب کر دیا تھا اور شعر سے میر کے حوصلے اور عزیمت کا استنباط کیا تھا۔ (شکست و فتح تو نصیبوں پہ ہے میاں لیکن / مقابلہ تو دِل ناتواں نے خوب کیا) حالاں کہ اس واقعے سے ذمے دارانہ تنقید کا تصور تو ابھرتا ہے، تحقیق اور تنقید کے اس نامیاتی رشتے کی وضاحت نہیں ہوتی، جس میں دونوں ’شیر و شکر‘ ہو جاتی ہیں، اسی طرح ’شیر و شکر‘ جس طرح سماجی سائنس میں: جہاں تحقیقی مواد، بغیر تعبیر و تجزیے کے یک سر بے معنی ہوتا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ اردو میں تحقیق اور تنقید میں لازمی رشتے کے سلسلے میں جتنے دلایل دیے جاتے ہیں، وہ تحقیق کے اس ’پیراڈایمی اصول‘: تحقیق امرِ واقعہ کو صحت و سند کے ساتھ سامنے لانے سے عبارت ہے _____ سے مشروط ہیں۔ یہ کہ تنقید کو کسی متن کی تعین قدر یا اس کے تجزیے سے پہلے اس کی ’صحت‘ کا تعین کر لینا چاہیے۔ آخر الذکر عمل تحقیق ہے۔ تحقیق اور تنقید کا یہ رشتہ کس قدر ’سادہ ‘ ہے، اس کی وضاحت کی چنداں ضروت نہیں۔ غور کیجیے: اگر تمام ادبی متون مدون ہو چکے ہوں اور ادبی تاریخ مرتب ہو چکی ہو تو پھر تنقید اور تحقیق میں کس نوع کا رشتہ ہوگا؟ نیز تحقیق اور تنقید کے رشتے میں، تنقید کے لیے تحقیق کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ کہیں بھی تحقیق سے پہلے یا تحقیق کے دوران میں تنقید کی ضرورت کا احساس نہیں دلایا گیا ہے۔ سیّد عبداللہ کے بہ قول ’’ہماری تنقید کو ، تحقیق کی کمی کی وجہ سے بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘(۱۳) اس کے برعکس بات کسی معتبر محقق نے نہیں کہی، لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ اردو تحقیق اپنی موجودہ پیراڈایمی حدود میں تنقید کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھتی۔ گیان چند، قاضی عبدالودود جیسے محققین جب تنقید کو تحقیق میں دراندازی قرار دیتے ہیں تو وہ موجودہ اردو تحقیق کی پیراڈایمی حدود کی پاس داری کی خاطر ایسا کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ بذاتہٖ تنقید کے مخالف غالباً نہیں، بلکہ اپنے تصورِ تحقیق میں تنقید کی گنجایش نہیں دیکھتے۔ حق یہ ہے کہ تنقید کے لیے موجودہ اُردو تحقیق کے پیراڈایم میں کوئی جگہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی، جب تک تحقیق کی بنیاد، کسی عمرانی، تہذیبی، فلسفیانہ، جمالیاتی سوال پر نہ رکھی جاے اور تاریخی و بیانیہ تحقیق کے متوازی سماجی سائنسوں میں رائج تحقیق سے مدد نہ لی جاے۔ ظاہر ہے اس کے لیے پیرڈایم شفٹ کی ضرورت ہے!
اُردو تحقیق کی علمیات کا یہ زاویہ بھی، اپنی اصل سے جڑے ہونے کو ثابت کرتا ہے کہ اُردو تحقیق نے مغربی سماجی سائنسوں میں رائج تحقیق کے پیراڈایم کے صرف انھی حصوں کو قبول کیا ہے جو اُردو تحقیق کے تصور حقیقت کو تبدیل کرتے ہیں نہ متاثر: صرف رسمیاتِ تحقیق کو قبول اور اختیار کیا گیا ہے، یعنی حوالہ نگاری، تحشیہ اور کتابیات کے اندراج کی رسمیات اختیار کی گئی ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اُردو میں تحقیق کے متعلق کتابوں کا نوے فی صد حصہ رسمیات تحقیق کے باب میں ہوتا ہے، وگرنہ جہاں تک اُردو تحقیق میں حقیقت تک رسائی کا تعلق ہے، کم و بیش اسی طریق کار کو اپنایا گیا ہے جو اسلامی روایت میں روایت اور درایت سے موسوم ہے۔ اردو کے اوّل درجے کے محققین اسی محنت، کاوش، احتیاط اور استدلال سے کام لیتے ہیں جو محدثین کے یہاں ملتا ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں اور دوسرے محققین اگر تلاشِ حقیقت کے لیے حضرت ابو ایوب انصاری کے واقعے کا حوالہ دیتے ہیں، جنھوں نے محض ایک حدیث کے ایک لفظ سے متعلق شک دور کرنے کے لیے مدینے سے مصر کا سفر اختیار کیا جہاں حضرت عقبہؓ بن عامر موجود تھے تو یہ حوالہ بے جا نہیں دیتے، اُردو تحقیق کی روایت کی اصل پر روشنی ڈالنے کی خاطر ایسا کرتے ہیں۔ نیز یہ بھی اتفاق نہیں کہ متن کی صحت کا جو بلند تصور محدثین کے یہاں موجود ہے، کم و بیش وہی تصور اردو محققین کے یہاں بھی ملتا ہے۔
اُردو تحقیق میں یہ سوال تو قایم کیا گیا ہے کہ تحقیق کیا ہے اور اس کے لوازم اور رسمیات کیا ہیں؟ اور اس کے جواب کے لیے درجن بھر کتابیں اور درجنوں مقالات لکھے گئے ہیں۔ یہ ایک حیرت انگیز اور چشم کشا حقیقت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کتاب کو حقیقی معنوں میں تحقیقی کتاب قرار نہیں دے سکتے۔ اکثر کتابیں تو مرتبہ ہیں اور کلب عابد، گیان چند، عبدالرزاق قریشی، قاضی عبدالقادر اور ڈاکٹر اسلم ادیب کی کتب کی حیثیت تالیف کی ہے۔ تاہم تبسم کاشمیری کی کتاب (ادبی تحقیق کے اصول) استثنا ہے _____ لہٰذا ان کتابوں میں تحقیق کی مختلف تعریفوں، اقسام، طریق کار وغیرہ کی وضاحت، دست یاب انگریزی کتب کی مدد سے تو کر دی گئی ہے؛ مقالہ نگاری کے اصولوں پر بھی مبسوط انداز میں لکھا گیا ہے اور ان سے نئے محققین کو رسمیاتِ تحقیق کے سلسلے میں تمام ضروری راہ نمائی ملتی ہے، مگر اس سوال کا جواب ان کتب میں کہیں نہیں ملتا کہ ادبی تحقیق اپنی نوع کے اعتبار سے کیا ہے؟ کیا یہ فطری سائنسوں کی تحقیق میں شمار ہوتی ہے یا سماجی سائنسوں کی تحقیق کی صف میں آتی ہے یا ان دونوں سے الگ ہے؟ یہ ایک بے حد بنیادی سوال ہے، اتنا ہی بنیادی سوال، جتنا یہ کہ ادب سائنس ہے یا سماجی تشکیل یا ایک ایسی تخیلی تشکیل ہے جو سماجی تشکیلات کو کہیں عبور کر جاتی اور کہیں ان پر سوالیہ نشان لگاتی ہے؟ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اُردو تحقیق میں صرف ’رسمی سوال‘ قایم کیا گیا ہے، ’’تحقیقی سوال‘‘ نہیں یعنی ’’تحقیق کیا ہے؟‘‘ سوال اٹھایا گیا ہے، ’’تحقیق کا (علمیاتی) ماخذ کیا ہے؟‘‘ یہ سوال کسی اُردو محقق کے راستے میں حایل نہیں ہوا۔ اس سوال کے جواب سے ہی ادبی تحقیق کی خصوصیات اور انفرادیت کو طے کیا جا سکتا ہے اور یہ بات راقم کو نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ اردو کی ادبی تحقیق (چند ایک مستثنیات کو چھوڑ کر) صرف اس مفہوم میں ادبی تحقیق ہے کہ وہ ادب کی شخصیات، ادوار یا اصناف سے متعلق ہے، ادب کی اُس ادبیت سے کوئی رشتہ نہیں رکھتی، جس کے بغیر ادب بہ طور نوع قایم ہی نہیں ہو سکتا۔ اصولاً اسے ادبی تحقیق نہیں، ادب کی تحقیق کہنا چاہیے۔ ادبی تحقیق کے لیے موزوں پیراڈایم کا فیصلہ بھی مذکورہ بنیادی سوال کے جواب پر منحصر ہے، اس لیے کہ جدا قسم کی تحقیق کے لیے جدا جدا پیراڈایم درکار ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ سائنسی و سماجی علوم کے لیے یکساں پیراڈایم اختیار کیے جا سکتے ہیں اور یہ وہ زمانہ تھا (انیسویں صدی کے نصفِ آخر سے بیسویں صدی کے نصفِ اوّل تک) جب فطرت اور سماج کو ایک جیسے قوانین کا حامل سمجھا جاتا تھا، لہٰذا خیال کیا جاتا تھا کہ فطری سائنس کے جو قوانین مادے، اجرامِ فلکی، نباتات وغیرہ کی داخلی ساخت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں، وہ سماجی ساختوں کی تحقیق میں بھی یکساں طور پر کارگر ہیں، مگر پھر سماجی ساختوں کی اُس انفرادیت کو دریافت و قبول کر لیا گیا جو انسانی ارادے کی شمولیت سے، سماجی ساخت میں پیدا ہوتی ہے، جس سے فطرت محروم ہے۔ چناں چہ فطری سائنس کے تحقیقی پیراڈایم کے متوازی سماجی سائنسوں کے لیے الگ پیراڈایم وضع کیے گئے۔
اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ پیراڈایم تحقیقی نتائج پر اتنا ہی اثر انداز ہوتا ہے، جتنا راستے کا انتخاب منزل تک پہنچنے یا نہ پہنچنے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تحقیق میں اس سے بڑھ کر کوئی گم راہی نہیں ہو سکتی کہ یہ سمجھا جاے کہ اصل بات منزل پر پہنچنا ہے، راستہ خواہ کوئی ہو۔ یعنی آپ فطری سائنسوں کا پیراڈایم استعمال کریں یا سماجی سائنسوں کا، کمیتی طریقِ کار سے کام لیں یا کیفیتی طریق تحقیق سے استفادہ کریں یا سرے سے کسی پیراڈایم یا طریق کار سے کام نہ لیں، اٹکل پچو جو ہاتھ آے اسی سے کام چلائیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کو تو حقیقت دریافت کرنی ہے اور اس کے لیے کوئی مخصوص تحقیقی طریق کار نہیں ہے۔ اردو کے بیش تر محققین کے بارے میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا یہ دعوا بجا ہے کہ وہ ’’نہیں بتا سکتے کہ وہ کن اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں۔‘‘(۱۴) اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ وہ ایک ایسے پیراڈایم کے تحت کام کرتے ہیں، جس میں نہ تو اصولوں کی بحث اٹھائی جاتی ہے اور نہ اپنے تحقیقی سوال کے لیے موزوں تحقیقی طریق کار کا جوکھم پالنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔


153

اپنے وسیع مفہوم میں تحقیق، علم کے حصول، اشیا و مظاہر کی تفہیم کا ایک طریقہ کار ہے۔ علم کے حصول کے دیگر ذریعے اور طریقے بھی ہیں، جیسے اچانک کشف، الہام، کسی مقتدر ہستی کا فرمودہ، روایت، کہانیاں، ضرب الامثال وغیرہ۔ تحقیق کا طریقہ، ان سب سے الگ ہے۔ باقی سب طریقوں میں آپ کسی نہ کسی سطح پر مقتدرہ یا اتھارٹی کو تسلیم کر رہے ہوتے اور اپنی ذاتی فکر اور قوتِ استدلال کو معطل کر رہے ہوتے ہیں، مگر تحقیق میں محقق کا فکر اور استدلال پوری طرح فعال ہوتے ہیں اور یہ فعالیت ’ہمہ گیر‘ ہوتی ہے۔ چناں چہ یہ کہنا درست ہے کہ تحقیق علم کی تخلیق کرتی ہے۔
تحقیق کے طریقے سے علم کے حصول کی خواہش کا محرک، دنیا و کائنات سے متعلق ایک خاص فلسفیانہ تصور ہے؛ خواہ محقق اس امر سے واقف ہو یا نہ ہو۔ اس فلسفیانہ تصور کے مطابق دنیا، اس کی حقیقت، اس کے سوالات، اس کی اُلجھنیں، اس کے مسایل ازخود آپ کے علم میں نہیں آ سکتے اور نہ کوئی اتھارٹی، دنیا اور اس سے متعلق سوالات کا علم، ایک پیکیج کی صورت آپ کو عطا کر سکتی ہے۔ صاف لفظوں میں تحقیق صرف اسی سماج میں رائج ہوتی ہے، جو اس بات کو اصولی طور پر تسلیم کرتا ہو کہ علم کے انکشاف کی کوئی ایجنسی موجود نہیں ہے، خواہ یہ ایجنسی ماورائی ہو، سماجی، ثقافتی، ادارہ جاتی ہو۔ علم کا انکشاف صرف تحقیق کے منظم طریقے سے ممکن ہے۔ وہی سماج تحقیق پسند کہلا سکتا ہے جو ہر نوع کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی اخلاقی جرأت رکھتا ہو اور چیلنج کرنے کے لیے تمام ذہنی و علمیاتی وسایل سے مالا مال ہو۔ جو سماج انفرادی قدم اٹھانے سے پہلے طرح طرح کے خوف کی زد پر رہا ہو اور ذہنی و علمیاتی وسایل سے محرومی کا شکار ہو، وہ اگر تحقیق کرتا بھی ہے تو تحقیق کے نام پر ان بے جان حقایق کا ڈھیر لگاتا چلا جاتا ہے، جس سے کسی اتھارٹی کو خطرہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بات معنی و مفہوم سے خالی نہیں ہے اور ہر معنی و مفہوم ایک ’پوزیشن‘ ہے تو ’’مردہ حقایق کا ڈھیر‘‘ لگانے والی تحقیق بھی ایک مفہوم رکھتی ہے اور نتیجتاً ایک موقف یا پوزیشن کی حامل ہے اور اس پوزیشن کے مطابق دنیا میں جو کچھ اور جیسے موجود ہے، وہ درست اور قابل عمل ہے، لہٰذا انکار و انحراف بے وجہ اور تسلیم و موافقت درست رویے ہیں۔ دنیا کو تبدیل کرنے کی نہیں، اس سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔
تحقیق کے علمیاتی وسایل میں اہم ترین ’وسیلہ ‘ موضوعِ تحقیق کی مناسبت سے پیراڈایم اور طریق کار کا انتخاب ہے۔ تحقیق میں پیراڈایم کے درست انتخاب کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کسی مرض کے لیے درست دوا کی۔ جس طرح غلط دوا، مرض کے خاتمے کے بجاے مریض کو خاتمہ کر سکتی ہے، اسی طرح غیرموزوں پیراڈایم کا انتخاب موضوع تحقیق کے لیے ’مہلک‘ ثابت ہو سکتا ہے۔ پیراڈایم کے غلط انتخاب یا انتخاب کے معاملے کو نظر انداز کرنے سے آپ کسی شے کے جس علم تک پہنچے ہیں، وہ علم نہیں ہوتا، کوئی تعصب، کوئی خرافات یا کوئی فرضی امر ہو سکتا ہے۔(۱۵)
یہ بھی واضح رہے کہ تحقیق سے دو طرح کے علم کی نمود ہوتی ہے۔ ایک وہ جو موجود، مگر کئی پرتوں میں ملفوف یا تعبیروں سے مسخ شدہ شے کا انکشاف کرتا ہے۔ دوسرا علم یک سر نئی چیز کو تخلیق کرنے سے عبارت ہے۔ دوسرے لفظوں میں تحقیق، علم کی یافت بھی کرتی ہے اور علم کی تخلیق بھی! ظاہر ہے دونوں طرح کے علم کا مرتبہ یکساں نہیں ہو سکتا۔ دونوں کے درجے میں کم و بیش وہی فرق ہے جو احیا اور ارتقا میں ہے۔ عام طور پر کسی سماج میں علم کی یافت کی خواہش توانا ہوتی ہے یا علم کی تخلیق کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔ تحقیق کے ذریعے علم کی یافت کی خواہش اس سماج میں شدت اختیار کر جاتی ہے جو بعض تاریخی وجوہ سے ’’احیا پسند‘‘ ہو؛ جس کے اجتماعی لاشعور میں اپنے ماضی اور اپنی روایات سے الگ ہو جانے کا خوف اور اسی کے نتیجے میں اس سے جڑنے کی خواہش، ملی جلی صورت میں موجود ہوں۔ اس نوع کی تحقیقی روش عموماً نوآبادیاتی ماضی رکھنے والے ممالک میں فروغ پاتی ہے کہ ان کے ماضی کو مسخ کیا گیا اور ان کی روایات کو غلط تعبیروں کی زنجیریں پہنا کر اپاہج کیا گیا ہوتا ہے۔ جب کہ علم کی تخلیق کا جذبہ احیا سے زیادہ ارتقا پسند معاشروں میں غالب ہوتا ہے۔ ان کی نگاہ ماضی سے زیادہ مستقبل کی طرف ہوتی ہے۔ احیا اور ارتقا میں لازمی تضاد نہیں ہے اور بعض اوقات احیا، ارتقا کی بنیاد بھی بنتا ہے، تاہم جب احیا کا جذبہ تحقیق کی آزادانہ روش کے گرد حصار کی صورت اختیار کرلے اور اسے پابند کر ڈالے تو ارتقا سے اغماض کا رویہ عام ہو جاتا ہے۔ ساری اہمیت روایت کو پوری صحت کے ساتھ محفوظ کرنے یا روایت کو ناروا تعبیروں کی بھاری زنجیروں سے آزاد کرانے پر دی جانے لگتی ہے۔ نئی نظر اور تازہ وژن کی تخلیق سے بے زاری عام ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر ’’اپنی روایات سے الگ ہو جانے یا ان کے چھن جانے کا خوف‘‘ مجسم ہو کر سامنے آ جاتا ہے اور وہ نئی نظر اور تازہ وژن کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگتا اور اس پر غرانے لگتا ہے۔ چناں چہ دیکھیے کہ جہاں تحقیق کا مفہوم علم کی یافت ہو، وہاں علم کی تخلیق پر مبنی تصورِ تحقیق کو (ایک خطرہ سمجھتے ہوے) مسترد یا مسخ کرنے کی روش عام ہوتی ہے۔ بہ ہر کیف تحقیق خواہ ماضی میں موجود حقیقت یا صورتِ حال کا انکشاف کرے یا کسی نئے وژن اور نظریے کی تخلیق کرے، اپنے وجود اور اپنے قابلِ عمل ہونے کے لیے پیراڈایم کی محتاج ہوتی ہے۔


153

ادبی تحقیق کے لیے کیا پیراڈایم موزوں ہو سکتا ہے، اس سوال کے جواب کے لیے دست یاب پیراڈایم پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
معاصر عالمی فکر میں اس وقت تین قسم کے تحقیقی پیراڈایم رائج ہیں: ثبوتیت؛ ردّ ثبوتیت یا تعبیریت اور تنقیدی تھیوری۔
ثبوتیت (Positivism) کا پیراڈایم ارسطو، فرانسس بیکن، ڈیکارٹ، آگسٹ کومٹے، تھامس ہابز، ڈیوڈ ہیوم، جون سٹوارٹ مل اور درلھیم کے فلسفیانہ نظریات سے ماخوذ ہے؛ کومٹے کے نظریات سے بہ طور خاص۔ ثبوتیت کا مرکزی نکتہ مارٹن ہولیس کے لفظوں میں یہ ہے:
’’ثبوتیت کی اصطلاح فلسفے اور سماجی سائنس میں کئی معانی میں استعمال ہوتی ہے۔ وسیع معنی میں، اس سے مراد وہ(تحقیقی) طرز ہے جو سائنسی طریق کار کا اطلاق انسانی معاملات پر، اس خیال سے کرتا ہے کہ فطری نظم کے حامل ہونے کے سبب ان کی معروضی چھان بین کی جا سکتی ہے۔‘‘(۱۶)
لہٰذا ثبوتیت ایک ایسا پیراڈایم ہے، جو سماجی دنیا کو فطری دنیا کے مماثل سمجھتا ہے۔ اس کے مطابق سماج اور اس کے ادارے انھی قوانین کے تحت کام کرتے ہیں، جنھیں فطری سائنسوں نے، فطرت کے مطالعے سے دریافت کیا ہے۔ یعنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح فطرت میں جبریت، میکانکیت، تجربیت اور عمومیت ہے، اسی طرح سماج میں بھی ہے اور جس طور ہم فطرت کے قوانین کو سمجھنے کے لیے مشاہدے، تجربے اور تصدیق سے کام لیتے ہیں اور ہر بار یکساں نتائج پر پہنچتے ہیں، اس طرح سماج کے مطالعے میں بھی سماج کے خارجی احوال کے مشاہدے سے درست اور قابلِ تصدیق نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔ نیز جس طرح فطری سائنسوں کے قوانین میں عمومیت اور آفاقیت ہوتی ہے یعنی فطری مظہر اپنے مشاہدہ کرنے والے سے آزاد ہوتا ہے؛ مشاہدہ کرنے والے کا زاویہ نظر، تصور اقدار وغیرہ فطری مظہر کی تفہیم میں حایل نہیں ہوتے؛ ہر دفعہ اور ہر مقام پر ہر مشاہدہ کرنے والا یکساں نتائج پر پہنچے گا۔ اسی طرح کی عمومیت اور آفاقیت سماج میں بھی تصور کی جاتی ہے۔ اس پیراڈایم کی رُو سے تمام سماج خواہ وہ مشرقی ہوں کہ مغربی، قدیم ہوں یا موجودہ، ان کی بقا و ترقی اور تبدیلی و عمل آرائی کے قوانین مستقل اور آفاقی ہیں۔ اسی پیراڈایم میں یہ مفروضہ بھی مضمر ہے کہ اگر ہم فطری دنیا کا علم حاصل کر لیں تو سماجی دنیا کا علم حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ فطری دنیا، سماجی دنیا کے لیے ماڈل بن جاتی ہے۔ کوانٹم فزکس کا اصول لایقینیت، غیر یقینی سماجی تبدیلیوں کو سمجھنے میں راہ نمائی کرتا ہے۔ نیز جس طرح سائنس فطرت کی قوتوں کی قابو میں لا کر انھیں اپنے مصرف میں لاتی ہے، اسی طرح سماج کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور اسے کسی مخصوص نظریے یا آئیڈیالوجی کے تحت ڈھالا جا سکتا ہے۔ مزید برآں اس پیراڈایم کا ایک غیر اعلانیہ مفروضہ یہ بھی ہے کہ جو شخص یا جو سماجی گروہ فطری قوانین کا علم رکھتا یا سائنسی قوانین جانتا ہے، وہ اپنی سماجی زندگی میں بھی سائنسی شعور کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ دونوں مفروضے درست نہیں ہیں اور حقیقتاً ’غیر سائنسی‘ ہیں۔ بجا کہ ثبوتیت کے طرز پر سماجی مطالعات کرکے یورپی اقوام نے؂ نوآبادیات قایم کیں، یعنی انھوں نے فطری سائنسوں کی مہیا کردہ ٹیکنالوجی اور علم کی مدد سے ایشیائی اور افریقی اقوام کو غلام بنایا اور ان کی ثقافتوں میں (سائنسی طرز پر) نوآبادیاتی آئیڈیالوجی کے نفوذ کی ہمہ گیر کوششیں کیں، مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ نوآبادکاروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود، غلام ممالک میں آزادی کی تحریکیں کیوں چلیں اور کیوں جزوی یا مکمل طور پر کام یاب ہوئیں؟ اگر سماجی دنیا واقعی، فطری دنیا کے مماثل ہوتی تو فطری دنیا کے علم سے مالا مال قومیں تمام سماجوں پر اسی طرح تصرف رکھتیں، جس طرح وہ ٹیکنالوجیکل ذرائع سے فطری مظاہر پر رکھتی ہیں۔ اس وقت اگر مغربی ممالک، ترقی پذیر ممالک میں غیرمعمولی عمل دخل رکھتے ہیں تو اس کے اصل اسباب سیاسی و معاشی ہیں۔ اسی طرح یہ ہمارے عام مشاہدے میں آتا ہے کہ سائنس کے ذہین ترین پروفیسر سماجی معاملات کے فہم کے سلسلے میں نہایت غبی واقع ہوتے ہیں۔ وہ طلبا کو سائنسی قوانین پورے تیقن کے ساتھ پڑھاتے ہوے، عقائد، اقدار، اخلاقیات، سیاست کے معاملات میں کٹر اور قدامت پسند ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مذکورہ دونوں مفروضوں کے غیر سائنسی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اگر کسی شے کے قطعی علم تک پہنچنے کا نام ہے تو فطری سائنسوں کا طریق کار، سماج کا قطعی او ربے داغ علم نہیں دیتا، لہٰذا سماج کے مطالعے کے لیے کوئی دوسرا طریق کار درکار ہے۔ زمین کی حرکت کی درست پیش گوئی سائنس کر سکتی ہے، مگر انسانی عمال کے بارے میں کسی درست پیش گوئی کا امکان نہیں۔ اسی امکان کی معدومیت کی وجہ سے ہی نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکیں چلیں اور دنیا کے بڑے بڑے آمر بالآخر اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچے۔ بنا بریں سماجی مطالعات کے لیے نئے پیراڈایم کی تلاش ہوئی۔
نئے پیڑاڈایم کو ردّ ثبوتیت یا تعبیریت (Antipositivist & Interpretivism) کا نام دیا گیا ہے اور اس سے متعلق نظریات جرمن مفکرین: کانٹ، ہیگل، میکس ویبر، ولہلم ڈلتھے اور ہانس جارج گدامر کے یہاں ملتے ہیں اور یہ جرمن ہی ہیں جنھوں نے یورپی سائنس کی اس نہج کو تبدیل کیا، جس کے مطابق سماجی سائنسیں، فطری سائنسوں کے ماڈل پر تشکیل دی گئی تھیں۔ یہ سب مفکرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ فطری اور سماجی دنیائیں مختلف ہیں۔ لہٰذا دونوں کا علم یکساں طریق تحقیق سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس پیراڈایم کے اہم مقدمات یہ ہیں: (۱۷)
(ا) دنیا ہمارے علم کے بغیر اور آزادانہ وجود نہیں رکھتی۔ (کم از کم ہمارے لیے دنیا کا وجود اسی طور پر ہے)
(ب) دنیا ایک سماجی تشکیل ہے، جسے افراد کے باہمی تعامل نے تشکیل دیا ہے۔ سماجی دنیا میں حقیقت (fact) اور قدر (value) اس طرح باہم جدا نہیں ہیں، جس طرح ثبوتیت کا پیراڈایم دعوا کرتا ہے۔
(ج) ہر سماجی مظہر اپنی تعبیر چاہتا ہے کہ لازماً اس سے قدر وابستہ ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سماجی مطالعات میں ’معنی‘ پر زور ہوتا ہے اور کم و بیش ہر سماجی تحقیقی مطالعے میں زبان کے کردار کی تعبیر کی جاتی ہے، تاہم ’معنی‘ کی تلاش میں اس تناظر کو خاص اہمیت دی جاتی ہے؛ جو زیر تحقیق سماجی مظہر کو محتوی ہوتا ہے۔
غور کریں تو اس پیراڈایم میں تین باتوں پر زور ملتا ہے۔ ایک یہ کہ سماجی محقق اپنی تحقیق میں شریک ہوتا ہے۔ ثبوتیت کے پیراڈایم میں محقق، زیر تحقیق موضوع سے الگ ہوتا ہے، لہٰذا وہ جس علم تک پہنچتا ہے، اس تک دوسرے بھی یکساں طریق کار استعمال کرتے ہوے پہنچ سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی اگر نتائج وہی ہوں تو اس تحقیق کو درجہ استناد حاصل ہوتا ہے، مگر سماجی تحقیق میں کوئی تحقیق کٹر قسم کی سائنسی معروضیت اور عمومیت نہیں رکھتی۔ معروضیت اور عمومیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ تحقیقی نتائج تمام محققین کے لیے یکساں ہیں۔ محققین اگر تحقیقی اصولوں کے سختی سے پابندی کریں تو ان کے نتائج میں فرق نہیں ہوگا۔ گویا نتائج یا حقایق، محقق سے آزادانہ وجود رکھتے ہیں؛ محقق محض انھیں دریافت کرتا ہے۔ اس طرز کی معروضیت اپنی شدت کے ساتھ سماجی تحقیق میں ممکن نہیں۔ سماجی محقق، سماجی مطالعات میں فطری سائنسوں کے ماہرین کی طرح اپنے معروض سے الگ نہیں ہو سکتا۔ سماجی تحقیقی مطالعہ، اس کی شرکت سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس کی شرکت کا کیا مفہوم ہے؟ شرکت سے مراد، موضوع تحقیق کے ’معنی‘ اور ’قدر‘ کی وہ تعبیر ہے، جسے محقق اپنے ذہنی و علمیاتی وسایل کے مدد سے انجام دیتا ہے۔ ردّ ثبوتیت کے پیراڈایم میں دوسرا اس بات پر زور ملتا ہے کہ فطری حقیقت ہر قسم کی قدر سے آزاد ہوتی ہے، اس لیے سائنسی محقق محض توجیہہ پیش کرتا ہے۔ اسے معنی اور قدر سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، جب کہ سماجی محقق کو ان دونوں سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کسی آئیڈیالوجی کے تحت نہیں بلکہ اس لیے کہ سماجی حقایق، قدر سے مملو ہوتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ سماجی تحقیق میں (معنی اور قدر کی وجہ سے) موزوں تحقیقی طریق کار کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے کہ ہر سماجی تشکیل، تاریخی و ثقافتی اسباب کے تحت الگ اقدار و معانی کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے تمام سماجی تشکیلات کے لیے یکساں تعبیری حربے اختیار نہیں کیے جا سکتے۔ ایسا کرنے کا مطلب ثبوتیت کے جال میں ایک بار پھر گرفتار ہونا ہے۔
یہاں ایک خطرے کی نشان دہی اور سدباب ضروری ہے۔ ردّ ثبوتیت کے پیراڈایم کو سرسری نظر میں ’غیر سائنسی‘ سمجھے جانے کا خطرہ موجود ہے۔ درست کہ یہ پیراڈایم فطری سائنسوں کے پیراڈایم (ثبوتیت) پر تنقید کرتا ہے اور سماجی مطالعات کے ضمن میں اس کی نارسائیوں کو اجاگر کرتا ہے، مگر خود کو غیر سائنسی بنا کر پیش نہیں کرتا۔ سائنسی ہونے کا مطلب اگر درست نتائج تک پہنچنا ہے تو ردّ ثبوتیت بھی سائنسی ہے کہ سماجی دنیا کو فطری دنیا کے عین مماثل سمجھنے سے ہم سماج سے متعلق درست نتائج تک نہیں پہنچ سکتے۔ ردّ ثبوتیت کے سائنسی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جس طرح فطری سائنسوں میں فطری حقیقت لازماً قدر سے آزاد ہوتی ہے، اسی طرح سماجی سائنسوں میں سماجی حقیقت لازماً قدر سے ہم کنار ہوتی ہے۔ لہٰذا جس طرح فطری مظاہر کے مطالعے کے لیے مخصوص قوانین ہیں اور وہی کارگر ہیں، سماجی مظاہر کے لیے بھی بعض ناگزیر قوانین ہیں اور وہی ان کے لیے کارگر ہیں۔ علاوہ بریں ردّ ثبوتیت میں محقق کی شرکت کو غیرمعروضی اور غیر سائنسی سمجھے جانے کا خطرہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ محقق کی شرکت کا مطلب تعصبات کو راہ دینا نہیں بلکہ ایک انفرادی تناظر میں سماجی مطالعہ پیش کرنا ہے۔ چوں کہ انفرادی تناظر کے پردے میں اپنے شخصی، نسلی، قومی، مذہبی تعصبات کے اظہار کی گنجایش ہوتی؛ سماجی حقایق کی تعبیر میں ان تعصبات سے کام لینے کا امکان ہوتا ہے (مشرق شناسی کی روایت میں اسے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے)، اس لیے سماجی مطالعات میں اختیار کیے گئے تناظر کا تنقیدی جائزہ ضروری ہوتا ہے۔ اس جائزے کے بعد ہی یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کہاں سماجی مطالعہ سائنسی، غیر جانب دارانہ علم کی تخلیق کا موجب ہے اور کہاں جانب دارانہ اور مخصوص ’’سیاسی نتائج‘‘ کے حصول کا ذریعہ ہے۔
پیش نظر رہے کہ ردّ ثبوتیت کے تحت کے گئے سماجی مطالعات، فطری سائنسوں کے مطالعات کی طرح ’’آفاقی‘‘ نہیں ہوتے۔ وہ اسی تناظر میں قابلِ فہم ہوتے ہیں، جس میں یہ مطالعات کیے گئے ہوتے ہیں، تاہم وہ ملتے جلتے تناظر میں قابلِ عمل ہو سکتے ہیں۔ اس کی مثال میں کئی سیاسی، معاشی اور نفسیاتی نظریات پیش کیے جا سکتے ہیں جو سماجی مطالعات کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ جمہوریت، مارکسیت اور فرائیڈیت اس کی مثال ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ تناظر کوئی جامد چیز ہے نہ محض ایک مرتبہ وجود میں آنے اور پھر مٹ جانے والی تاریخی حقیقت ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو سماجی مطالعات سے استفادہ ناممکن ہو جاتا۔ یہاں اصل نکتہ سماجی مطالعے کو اِس متعلقہ تناظر میں رکھ کر دیکھنا اور اس کے معانی و امکانات کے ان حدود کا خیال رکھنا ہے، جو تناظر کے ہاتھوں وجود میں آئے ہیں۔
تنقیدی تھیوری کا پیراڈایم، تعبیریت کی ہی اگلی منزل ہے۔ اسے بھی ایک جرمن مفکر ہیبر ماس (Jurgen Hebermas) نے پیش کیا ہے۔ بجا کہ ہر سماجی تشکیل کی تحقیق کے لیے تعبیری حربے کی ضرورت ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ حربہ کیسا ہونا چاہیے؟ آیا یہ محض سماجی تشکیل کی حقیقی کارکردگی کو سامنے لاے؛ جو ’ہے‘ اُسی کو طشت ازبام کرے یا ایک تنقیدی رویہ اختیار کرتے ہوے جو ہونا چاہیے (تھا/ہے) اُس کو سامنے لاے؟ آیا سماجی تحقیق کو Conformist ہونا چاہیے یا Critical اور Emancipatory ؟ سماجی محقق فقط علم کی تخلیق کرے یا ایک ایسے علم کی تخلیق کرے جو سماج کو مقتدرہ کی پہنائی گئی زنجیروں سے آزاد کرانے کا امکان رکھتا ہو یعنی اُسے محض علم سے دل چسپی ہو یا علم کے ساتھ ساتھ ان انسانوں سے بھی جو نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی زنجیروں میں جکڑے ہیں؟ اِسی سوال کے جواب میں ہیبر ماس نے ’تنقیدی تھیوری‘ کا پیراڈایم پیش کیا ہے۔
ہیبر ماس کے مطابق اب تک جتنے علوم پیدا ہوے ہیں، وہ تین قسم کے ہیں اور تین قسم کی انسانی دل چسپیوں یا مفادات نے پیدا کیے ہیں۔ مثلاً اپنے ماحول پر قابو پانے کے انسانی مفاد نے فطری سائنسوں (طبیعیات ، کیمیا، حیاتیات) کو پیدا کیا۔ گروہی اور سماجی تعامل کو سمجھنے کے انسانی مفاد نے سماجی سائنسوں اور انسانی علوم (تاریخ، قانون، جمالیات، ادب) کو جنم دیا، جب کہ حیاتیاتی، سماجی اور ماحولیاتی جبر سے آزادی کی خواہش اور مفاد نے تحلیل نفسی، تانیثیت، آئیڈیالوجی پر تنقید کی تمام فلسفیانہ روایتوں کو پیدا کیا۔ انھیں ’تنقیدی سماج سائنس‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔(۱۸) اس طور ہیبر ماس نے سماجی سائنسوں کی ایک نئی قسم کی نشان دہی کی ہے۔ یہ سائنسیں ہر نوع کی مقتدرہ کی ہر وضع کی اقتدار پسندانہ تدبیروں کا پردہ چاک کرتی ہیں۔ ظاہر ہے تینوں علوم کے لیے الگ الگ تحقیقی طریق کار درکار ہیں۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر پیراڈایم کے لیے الگ طریق کار درکار اور موزوں ہوتا ہے۔ مثلاً ثبوتیت کے لیے کمیتی طریق کار (Quantitative Method) موزوں ہے تو ردّ ثبوتیت کے لیے زیادہ تر کمیتی طریق کار (Quantitative Method) مناسب ہے، جب کہ ’تنقیدی تھیوری‘ پیراڈایم کے لیے تنقیدی اور عمل اساس طریق کار (Critical and action-oriented Method) موزوں ہے۔(۱۹)
ایک ایسے سماج میں جہاں فطری اور سماجی سائنسوں کی اپنی اور باقاعدہ روایت نہ ہو۔ دونوں طرز کی سائنسیں خود اس سماج کی داخلی، ثقافتی کوکھ سے پیدا نہ ہوئی ہوں، بلکہ بعض تاریخی وجوہ سے ’درآمد‘ کی گئی ہوں اور اس سے بھی بڑھ کر عالمی سطح پر ان سائنسوں میں اب تک جتنی پیش رفت ہوئی ہے، اس کی کامل اور تنقیدی آگاہی مستثنیات میں سے ہو اور نتیجتاً قبل جدید عہد کی توہماتی ذہنیت عام ہو اور روایت کے نام پر متحجر تصورات سے عقیدت کا غلبہ ہو، وہاں ادبی تحقیق کے لیے موزوں پیراڈایم کے انتخاب کا معاملہ خاصا پے چیدہ ہو جاتا ہے۔
ان معروضات سے ایک بات واضح ہے کہ ادبی تحقیق کے لیے بھی موزوں پیراڈایم درکار ہیں اور موزوں تحقیقی طریق کار۔ راقم یہاں ادبی تحقیق سے وہ تحقیق مراد لے رہا ہے، جو ادب کی تاریخ، ادب کی اصناف، ادب کے ادوار اور ادب کی شخصیات سے متعلق نہیں اسے ’’ادب کی تحقیق‘‘ کہنا چاہیے کہ یہ ادب کی روح (236 ادبیت) کے بجاے ادب کے متعلقات سے جڑی ہے۔ ان حوالوں سے اردو میں بے شبہ نہایت قابلِ قدر کام ہوا ہے۔ جس طرح ادبی تنقید کا موضوع ادبی متن ہے اور ادبی متن کی تہوں میں اُترنے، متن کے معنیاتی سلسلوں کو منکشف کرنے یا متن سے متعلق ایک عمومی بصیرت پیش کرنے سے ہی کوئی تحریر تنقید کہلانے کی حق دار ہے، اسی طرح ادبی تحقیق کا اصل موضوع بھی ادبی متن ہے اور اس تحقیق کو ادبی متن کی بنیاد پر علم تخلیق کرنا چاہیے، جو تحقیق محض ادبی متن اور اس کے متعلقات کی صحت کے تعین تک محدود ہو جاتی ہے، وہ تحقیق کا ابتدائی درجہ ہے اور نوعیت کے اعتبار سے وہ تاریخی تحقیق ہے۔ تحقیق کے ابتدائی درجے کی افادیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے، مگر اسی درجے پر رُکے ہونے پر اطمینان بھی کسے ہو سکتا ہے!
سوال یہ ہے کہ کیا ادبی تحقیق کے لیے سماجی سائنسوں کے مذکورہ بالا پیراڈایم ہی موزوں ہیں یا نہیں؟ اگر یہ بات اصول کا درجہ رکھتی ہے کہ زیر تحقیق موضوع یا مسئلے کی نوعیت ہی پیراڈایم کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر یہ بات سوچنے والی ہے کہ آیا ادبی متن ایک فطری مظہر کی مانند ہے؛ ایک سماجی تشکیل ہے یا اس کی مثل ہے یا ایک تخیلی تشکیل؟ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ادب اور سماجی علوم کے باہمی اختلاف اور مماثلتوں پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ ادب اور سماجی سائنس دونوں سماج سے متعلق ہیں۔ سماج سے تعلق کے سلسلے میں دونوں میں ایک مشترک نکتہ یہ ہے کہ دونوں سماج کو ’’تعبیر طلب مظہر‘‘ خیال کرتی ہیں۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی سماجی وقوعہ، ثقافتی ادارہ، اجتماعی انسانی رویے اور سرگرمیاں، انفرادی تجربہ و طرزِ فکر وغیرہ کسی نہ کسی معنی اور قدر کے حامل ہیں۔ معنی اور قدر اس طرح ّ بین اور قابلِ مشاہدہ نہیں، جس طرح کہ ایک فطری مظہر کے اوصاف ہوتے ہیں۔ (ہرچند کرداریت فطری مظہر اور سماجی مظہر میں فرق کی قایل نہیں، مگر وہ بھی سماجی مظہر کی تعبیر سے انکار نہیں کرتی) چوں کہ فطری مظہر کے اوصاف ہر جگہ اور ہر ایک کے لیے یکساں ہوتے ہیں، اس لیے وہ ’’توجیہہ طلب‘‘ ہوتے ہیں، جب کہ سماجی معنی اور قدر، کئی ثقافتی، نفسیاتی، لسانی اور تاریخی عوامل کے تال میل سے وجود میں آتے ہیں، اس بنا پر یہ پے چیدہ علامتی مظہر میں ڈھل جاتے ہیں اور اسی لیے یہ توجیہہ سے زیادہ اور بسا اوقات توجیہہ کے علاوہ اپنی تعبیر کا تقاضا کرتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ جو لوگ اس ’علامتی سماجی مظہر‘ میں شریک ہوتے ہیں، انھیں اس کی تعبیر کی ضرورت نہیں ہوتی؛ وہ تو اسے جی رہے ہوتے ہیں، مگر جو لوگ ’علامتی سماجی مظہر‘ سے باہر ہوتے یعنی ان پر سوال اُٹھاتے ہیں، انھیں لازماً ان کی تعبیر کرنا پڑتی ہے۔ سماجی سائنس اور ادب دونوں سوال اٹھاتے ہیں، اپنے اپنے انداز میں اور دونوں اپنے انداز میں سماجی مظاہر کی تعبیر بھی کرتے ہیں۔ تعبیر کے طریقوں کا فرق اس قدر بنیادی ہے کہ تخلیقی ادب کو سماجی سائنس کے زُمرے میں شامل کرتے ہوے ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ مختصراً سماجی سائنس، منظم تحقیقی طریق کار (کمیتی اور کیفیتی) کے ذریعے سماجی تشکیلات کی تعبیر کرتی ہے اور اسی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے، جب کہ ادب تخیلی طریق کار کے ذریعے سماج کی ’’تعبیر ‘‘ کرتا ہے۔ ادب اور سماجی سائنس اپنے طریق کار کے فرق کو قائم رکھتے ہوے اور نتیجتاً اپنے اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوے، اس نکتے پر بھی متفق ہیں کہ سماجی مظاہر کی محض صحت کے ساتھ بازیافت نہیں کی جاتی، بلکہ سماجی مظاہر کی اساس پر ایک ایسی بصیرت کا انکشاف کیا جاتا ہے جو کتنی ہی سماجی ساختوں کو روشن کرتی اور انسانوں کو نئی راہ دکھاتی ہے۔
اگرچہ نظری اور عملی اعتبار سے ادبی تحقیق کو سماجی سائنس میں شامل کرنے کی سنجیدہ کوشش کہیں نظر نہیں آتی، مگر اس کوشش کی عدم موجوددگی، ادبی تحقیق کو سماجی سائنس میں شامل نہ کرنے کا جواز ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ادبی تحقیق کو صحت متن کے مرحلے کو عبور کرکے خود کو باقی رکھنا اور علمی سرگرمی کے طور پر ترقی کرنا اور ادب کے واسطے سے اہم سماجی اور ثقافتی سوالوں کے جواب دینے کی ذمے داری کو قبول کرنا ہے تو پھر اسے سماجی سائنس بنے بغیر چارہ نہیں، مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آیا ادبی تحقیق کو اُسی طرح سماجی سائنس بننا ہے، جس طرح ابتدا میں سماجی سائنس وجود میں آئی تھی؟ یعنی سماجی سائنس نے طبعی سائنس کو بہ طور ماڈل پیش نظر رکھا تھا اور اس کے مطابق خود کو ڈھالا تھا، سماجی مظہر کو طبعی مظہر کی مانند خیال کرکے ان کی تحقیق کی تھی۔ سادہ لفظوں میں کیا ادبی تحقیق کو سماجی سائنس کے زُمرے میں شامل ہونے کے لیے، ادبی متن کو ایک سماجی مظہر کے طور پر فرض کرنا ہوگا اور ادبی متن کے تحقیقی مطالعے میں سماجی سائنس کے پیراڈایم کی ہو بہ ہو پیروی کرنا ہوگی؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کا مطلب ایک ایسی غلطی کا ارتکاب ہوگا جو ادبی تحقیق کو سماجی سائنس نہیں بننے دے گی۔ سماجی سائنس اپنے موضوع کی نسبت سے پیراڈایم اور تعبیری حربے اختیار کرتی ہے اور اگر اس ضمن میں وہ کسی خطا کی مرتکب ہوتی ہے تو وہ اپنی سائنسی حیثیت کو داؤ پر لگاتی ہے۔ چناں چہ اگر ادبی تحقیق کو سماجی سائنس بننا ہے تو پھر اپنے موضوعِ تحقیق کی مناسبت سے پیراڈایم اور تعبیری حربے کا انتخاب کرنا ہوگا۔
یہ کچھ زیادہ بحث طلب نہیں کہ سماجی مظہر اور ادبی متن مختلف ہیں۔ یہ درست ہے کہ سماجی مظہر وہ ’خام مواد‘ ہے، جس سے مختلف تعبیری طریقوں کے ذریعے سماجی سائنس اور ادبی متن وجود میں آتے ہیں، مگر ادبی تحقیق براہِ راست سماجی مظہر کو موضوعِ تحقیق نہیں بناتی۔ چوں کہ ادبی تحقیق، ادبی متن کو موضوعِ تحقیق بناتی ہے جو سماجی مظہر سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے ادبی تحقیق کے لیے بعینہٖ وہی پیراڈایم موزوں نہیں ہو سکتا جو سماجی سائنس کے لیے موزوں ہے۔ یہاں اس خیال کا پیدا ہونا ’’عین فطری‘‘ ہے کہ جب ادبی متن سماجی مظہر کی تعبیر کر چکا ہے تو اس کے بعد تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہی کیاہے! اردو تحقیق کا موجودہ پیراڈایم تو شدّ و مدّ سے اس خیال کا حامی ہے کہ تحقیق ادبی متن کی نہیں، ادبی متن کے متعلقات یا ادبی متن کی محض صحت کے تعین کے لیے ہوتی ہے اور ادبی متن کا فقط تنقیدی مطالعہ کیا جا سکتا ہے _____ یہ گم راہ کن خیال اس لیے فطری لگتا ہے کہ اوّل اس زاویے سے کبھی غور نہیں کیا گیا، دوم اردو تحقیق کی پیراڈایمی حدود سے باہر جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کوئی خیال فطری نہیں ہوتا، بعض رویوں، عادتوں کی تکرار یا اُصولوں کی نام نہاد پایندگی کسی خیال کو فطری بنا کر پیش کرتی ہے۔
اگر ادبی متن ایک سادہ اور اکہری حقیقت ہوتا تو ادبی تحقیق (اور ادبی تنقید) کی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔دوسرے لفظوں میں اگر ادبی متن ایک عمومی لسانی مظہر ہوتا، جس کا ابلاغ سریع اور فوری ہوتا ہے تو تحقیق خواہ مخواہ کا جھنجٹ ہوتا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ادب ایک پے چیدہ اور علامتی لسانی مظہر ہے، جس کی تشکیل میں کئی سماجی نفسیاتی، آئیڈیالوجیکل عوامل حصہ لیتے ہیں نیز متھ، ڈسکورس اور مہا بیانیے بھی ادب کی تخلیق پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انھی کی وجہ سے ادب پے چیدہ اور علامتی مظہر میں ڈھلتا ہے۔ ’’اے پس ٹیمی حدود ‘‘ ان کے علاوہ ہیں۔ ہر زمانے میں سماجی، نفسیاتی اور آئیڈیالوجیکل عوامل موجود ہوتے اور ادب سمیت تمام سماجی و تخیلی تشکیلات پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں، مگر ہر زمانے میں ان کا مفہوم، معنویت اور قدر مختلف ہوتی ہے۔ کلاسیکی، رومانوی، جدید اور مابعد جدید ادب میں فرق بھی اسی سبب سے پیدا ہوتا ہے۔ ادبی تحقیق درحقیقت انھی عوامل کے مفہوم، معنویت اور قدر کی تحقیق کرتی ہے۔ ادبی محقق یہ جاننا چاہتا ہے کہ ادبی متون میں سماجی، نفسیاتی اور آئیڈیالوجیکل عوامل کس طور شامل ہوتے اور متھ اور بیانیے ادبی متن کی تہوں میں کیوں کر تحلیل ہو جاتے ہیں؟ اور اگر کہیں ادب ان سب عوامل سے ماورا ہو کر ایک ’’چیزے دیگر‘‘ بننے میں کام یاب ہوتا ہے تو اس کی کیا سماجی، نفسیاتی آئیڈیالوجیکل یا فنی وجہ ہوتی ہے؟ ادب سماجیت سے کبھی ماورا نہیں ہو سکتا۔
واضح رہے کہ ادبی تحقیق تاریخی اور نفسیاتی تنقید کی طرح سیدھا سادہ معاملہ نہیں کہ پہلے تاریخی و سوانحی حقایق جمع کر لیے جائیں، پھر ادبی متون میں ان کی بازیافت کر لی جاے۔ سماجی، نفسیاتی، آئیڈیالوجیکل عوامل اور متھ، مہا بیانیے، کلامیے اپنے آپ وجود میں نہیں آتے ،سماجی قوتیں انھیں وجود میں لاتیں، اپنے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ مفادات کی خاطر اور مادی یا روحانی مقاصد کے تحت، انھیں باقی و جاری رکھتی ہیں۔ ادب ان عوامل کی ’’تخیلی تعبیر‘‘ کرتا ہے۔ ادبی محقق دراصل ان سماجی قوتوں اور ان کے ضمن میں ادب کے علامتی طرز عمل کی نشان دہی کرتا ہے، جس کا نتیجہ ایک نئے سماجی علم کی تخلیق کی صورت ہوتا ہے۔
جہاں تک ادبی تحقیق کے لیے پیراڈایم کے انتخاب کا معاملہ ہے تو اس کے لیے بین العلومی (Interdisciplinary) پیراڈایم ہی موزوں ہے۔ ایک ایسا پیراڈایم جو طبعی اور سماجی علوم کے تحقیقی طریق کار کو، تحقیقی سوالات کی نسبت سے بروے کار لاتا ہے۔ ادب میں بہت سے سماجی، ثقافتی، نفسیاتی اور فلسفیانہ سوالوں کا جواب پنہاں ہوتا ہے تو اسی طرح کے سوالات ادب اٹھاتا بھی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ادبی متون پر گفت گو مختلف اوقات میں اور مختلف زاویوں سے نہ ہوتی۔ چوں کہ ادب کی ’رینج‘ وسیع ہے اسی لیے اس کے لیے تحقیقی پیراڈایم بھی کوئی ایک نہیں ہو سکتا۔ ادبی متن ایک ایسا ’’مقام‘‘ ہے جہاں متعدد دھارے یک جا ہوتے ہیں، لہٰذا اس کی تحقیق بھی کئی زاویوں سے کی جا سکتی اور ایک ایسے علم کی تخلیق کی جا سکتی ہے، جو اور طرح سے ممکن نہیں ہے۔ یعنی حقیقی ادبی تحقیق سے وجود میں آنے والا علم نفسیات، سیاسیات، تاریخ وغیرہ سے مختلف، مگر انھی کی مانند سماجی سائنس ہوتا ہے۔ مغرب میں ثقافتی تھیوری کے نام سے وجود میں آنے والا علم اسی نوع کا ہے۔ اردو تحقیق ابھی اپنی ثقافتی تھیوری کے معرضِ وجود میں آنے کی منتظر ہے اور یہ انتظار اسی وقت ختم ہو سکتا ہے، جب اردو ادب میں بین العلومی مطالعات، بین الاقوامی تحقیقی معیار کے مطابق کیے جائیں گے!

حواشی :
۱۔ تھامس کوہن نے ۱۹۶۲ء میں پیراڈایم کی تھیوری پیش کی انھوں نے اپنی کتاب ’’سائنسی انقلابات کی ساخت‘‘ میں سائنسی نظریات کی داخلی تاریخ لکھی۔
اس کتاب سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
"By choosing it (paradigm), I mean to suggest that some accepted examples of actual scientific practice-examples which include law, theory, application, and instrumentation together-provide modles from which spring particular coherent traditions of scientific research."
(The Structure of Scientific Revolutions, University of Chicago, USA, 1970 (2nd, ed) P-10)
۲۔ کلب عابد، عماد التحقیق، شعبہ دینیات، علم یونیورسٹی، علی گڑھ، ۱۹۷۸ء، ص ۱۴
۳۔ گیان چند، تحقیق کا فن، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۲۰۰۷ء ص ۹
۴۔ عبدالرزاق قریشی، مبادیات تحقیق، ادبی پبلشرز، بمبئی، ۱۹۱۶۸ء، ص ۴
۵۔ خلیق انجم، ’’ادبی تحقیق اور حقایق‘‘ مشمولہ تحقیق شناسی (مرتبہ رفاقت علی شاہد)، القمر انٹرپرائز، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص ۴۳
۶۔ نذیر احمد، ’’تاریخی تحقیق کے بعض بنیادی مسایل‘‘ مشمولہ تحقیق شناسی، ص ۵۲
۷۔ عبدالستار دلوی، ادبی اور لسانی تحقیق: اصول اور طریق کار، بمبئی یونیورسٹی، ۱۹۸۴ء، ص ۱۳
۸۔ قاضی عبدالودود، ’’اصولِ تحقیق‘‘ مشمولہ تحقیق شناسی، ص ۷۷
۹۔ گیان چند، تحقیق کا فن، ص ۱۳
۱۰۔ قاضی عبدالودود، ’’اصول تحقیق‘‘، مشمولہ تحقیق شناسی ص ۷۷
۱۱۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، ادبی تحقیق، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۹۴ء ص ۲۳
۱۲۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کے مطابق
’’۔۔۔ بلاشبہ (تحقیق) نامکمل ہے، مگر تعبیر و تشریح کے ساتھ نہ ہو یا باالفاظ دیگر، اگر اس کے ساتھ تنقید نہ ہو۔‘‘ (تحقیق کے بنیادی لوازم‘‘ مشمولہ (تحقیق شناسی، ص ۳۵)
ڈاکٹر جمیل جالبی کے نزدیک :
’’جدید رجحان یہ ہے کہ تنقید کی بنیاد تحقیق پر رکھی جاے تاکہ جو بات کہی جاے پہلے اس کی صحت ہو جاے ۔۔۔ اس رجحان کے زیرِ اثر تنقید و تحقیق ایک دوسرے سے نہ صرف قریب آ رہی ہیں بلکہ تحقیق، تنقید میں جذب ہو رہی ہے۔‘‘ (ادبی تحقیق، ص ۱۷)
خلیق انجم کے خیال میں :
’’اب تشریخ و تعبیر کی بات لیجیے۔ فرض کیجیے، میں نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ میر کس سنہ میں پیدا ہوے، ان کے والد کا کیا نام تھا، ان کا پیشہ کیا تھا وغیرہ وغیرہ تو اس سے ادب کو کیا فائدہ ہوا؟ ہاں اگر حقایق کی مدد سے میں نے میرؔ کی روح اور ذہن تک پہنچنے کی کوشش کی ہے تو یہ مستحسن ہے اور یہی تحقیق کا اصل مقصد ہے، ورنہ محض حقایق جمع کرنے کا کام ایک ایسا معمولی صلاحیتوں کا شخص بھی کر سکتا ہے، جس نے لائبریری سائنس کی تربیت حاصل کی ہو۔‘‘ (’’ادبی تحقیق او حقایق‘‘ مشمولہ تحقیق شناسی، ص ۵۱)
۱۳۔ سیّد عبداللہ، ڈاکٹر، تحقیق و تنقید، مشمولہ تحقیق شناسی، ص ۱۰۵
۱۴۔ تبسم کاشمیری، ڈاکٹر، ادبی تحقیق کے اصول، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۹۲ء، ص ۸
۱۵۔ اس بات کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے کیا ہے:
’’۔۔۔ کس حوالے سے ہم تحقیق کے بنیادی لوازم تلاش کرنا چاہتے ہیں؟ ادبی اور تاریخی تحقیق کے حوالے سے؟ سماجی تحقیق کے حوالے سے؟ تجزیاتی تحقیق کے حوالے سے؟ جدا جدا حوالوں کے ساتھ جدا جدا بنیادی لوازم یا یوں کہیے کہ تحقیق کا ’انفراسٹرکچر‘ بدلتا جاے گا۔‘‘
(’’تحقیق کے بنیادی لوازم‘‘، مشمولہ تحقیق شناسی، ص ۳۲۔۳۳)
۱۶۔ Martin Hollis کے اصل الفاظ یہ ہیں :
"Positivism is a term with many uses in social science and philosophy. At the broad end, it embraces any approach which applies scientific method to human affairs conceived as belonging to a natural order open to objective inquiry."
(The Philosophy of Social Science, Cambridge, 1999, p-41)
۱۷۔ یہ نکات زیادہ تر Jonathan Grix کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
The Foundations of Research, Palgrave Macmillan, New York, 2004, p 83-4
۱۸۔ تفصیلی مطالعے کے لیے رجوع کیجیے :
i) Habermas, J. Knowledge and Human Interest (J. Shapiro. Trans.), London, 1970
ii) McCarthy, Thomas, The Critical Theory of Jurgen Habermas, USA, Pobty Press, 1978


Back to Conversion Tool


Back to Home Page

3 comments: