Wednesday, August 3, 2011

Fiction's Critique : Old and New Theories

فکشن کی تنقید: پرانے اور نئے نظری مباحث


فکشن کی تنقید نے (جو بیش تر مغربی ذہن کی پیداوار ہے)مجموعی طور پر دو بڑے سوال قائم کیے اور ان کے جوابات کی تلاش میں سرگرمی دکھائی ہے۔ پہلا سوال ہے: فکشن کا زندگی سے کیا رشتہ ہے؟جب کہ دوسرا سوال یہ ہے: فکشن کی اپنی آزادانہ حیثیت اور شعریات کیا ہے؟ افسانوی تنقید کو یہ دو سوال تشکیل دینے میں صدیاں لگی ہیں۔ تخلیقی بیانیوں کو سمجھنے میں انسانی فکر نے کس قدر سست روی کا مظاہرہ کیاہے!
تاریخی طور پر دیکھا جائے توبیسویں صدی کے ربعِ اوّل سے قبل (روسی ہیت پسندی کے آغازسے پہلے)افسانوی تنقیدنے بالعموم پہلے سوال کو اپنا محور بنایا اور بعد ازاں فکشن کی تنقید نے جو رخ اختیار کیا اور جس دائرے کوتشکیل دیا، وہ دوسرے سوال کا مرہون ہے، تاہم فکشن کی تنقیدی روایت میں (جسے اب کر کشن Criction بھی کہا جانے لگا ہے)، ان دونو ں سوالوں کی موجودگی کا احساس برابر رہا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ پہلے فکشن اور زندگی کے رشتے سے متعلق سوال کو اہمیت ملی اور پھرایک وقت آیا، جب یہ سوال پس منظر میں چلا گیا اور فکشن کی اپنی شعریا ت کو سمجھنے یا طے کرنے کے مساعی ہوئیں۔
ایک سوال کی جگہ دوسرے سوال کو اہمیت ملنے کی ایک وجہ تو پہلے سوال کی ’’فکری اور اطلاقی توانائی ‘‘ کا صَر ف ہو جانا ہے اور دوسری وجہ بعض تاریخی واقعات وعوامل ہیں ،جو سوالوں کی اہمیت و معنویت پر اثر انداز ہوتے ہیں اور تیسری وجہ ،وہ روحِ عصریاEpistemeہے جو بعض چیزوں اور سوالوں کو اہم اور بعض کو غیر اہم بنا دیتی ہے ۔چوں کہ ادبی تنقید، معاصر فلسفیانہ و سائنسی فکر سے منسلک و متاثر رہی ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ادبی تنقید نے اپنے عہد کے غالب فکری رجحانات کی روشنی میں اپنے سوالات قائم کیے ہیں،اس لیے معاصر فکر بدلتی ہے تو تنقیدی سوالات بھی بدلنے لگتے ہیں۔ تنقیدی سوالات کی تبدیلی کے پس منظر میں یہ وجہیں،بہ یک وقت یا الگ الگ موجود ہوتی ہیں۔
فکشن کی تنقید کے ابتدائی نقوش یونانی تنقید میں ملتے ہیں۔ افلاطون نے ’جمہوریہ ‘‘میں نقل نگاری (Mimesis)اور واقعہ نگاری(Digesis)کی اصطلاحات برتی ہیں۔ افلاطون نقل سے مراد ایسا بیانیہ لیتا ہے جو کسی واقعے کی ٹھیک ٹھیک نمایندگی یا نقل کرے(واضح رہے کہ اس کے پیش نظر المیے، طربیے اور رزمیے پر مبنی شعری فکشن ہے)۔ ’’نقل‘‘پڑھتے ہوئے ہمار ادھیان نہ صرف واقعے پر(جس کی نقل کی جاری ہے) برابر مرکوز رہے بلکہ اس کے حقیقی ہونے کا تاثر بھی ملے۔ دوسرے لفظوں میں ’’نقل‘‘ ایک قسم کی حقیقت نگاری ہے، جب کہ ’’واقعہ نگاری‘‘ ایک ایسے بیانیہ کا مفہوم لیے ہوئے ہے جو اپنے تخیلی اور تشکیلی ہونے کا تاثر دے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کی توجہ بیانیے کی اپنی جداگانہ کائنات پر مرتکز رہے۔ ہم کَہ سکتے ہیں کہ ’’نقل‘‘فکشن /بیانیے کو زندگی کے خارجی ،مانوس اور روز مرہ تجربات سے مربوط کرتی ہے اور واقعہ نگاری بیانئے کے خود مختار ، خود کفیل اور خود اپنے شعریاتی ضوابط کے تابع ہونے کا مفہوم لیے ہوئے ہیں۔ نقل ،واقعہ ہے اور واقعہ نگاری، بیان واقعہ۔ نیز یہ دو اصطلاحیں دو زاویہ ہائے نظر بھی ہیں جو فکشن کو زندگی کی نظر سے اور فکشن کو خود فکشن کی نظر سے دیکھنے سے عبارت ہیں۔ ایک فکشن کے اصول فکشن سے باہر زندگی میں تلاش کرتا ہے اور دوسرا زاویہ نگاہ فکشن کے اصولوں کو خود فکشن کے اندر دریافت کرتا ہے۔ چناں چہ ایک فکشن کو کسی اور حقیقت یا تجربے پر منحصر خیال کرتا ہے اور دوسرا فکشن کو اپنے آپ میں مکمل اور خودکفیل متصور کرتا ہے۔ پہلی صورت میں فکشن کی قدر کا تعین باہر کی حقیقت (اور اس کی کامیابی عکاسی) کی ر’و سے کیا جاتاہے اور دوسری صورت میں قدر کا پیمانہ خود فکشن ہوتا ہے۔
یہ ایک جائز سوال ہے کہ اگر کوئی بیانیہ مانوس تجربے ،واقعے کو پیش کرتا ہے تو اسے فکشن کیوں کہا جاے؟فکشن کی لازمی شرط ،اس کا اختراعی اور تشکیلی ہوناہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ’نقل پر مبنی فکشن‘میں یہ شرط کیوں کر پوری ہوتی ہے۔قصہ یہ ہے کہ فکشن میں واقعے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے:راوی،پلاٹ،سامع،تھیم، آئیڈیالوجی وغیرہ۔واقعات اگر مانوس ہیں تو انھیں کسی خاص راوی کے ذریعے بیان کرنا اور پلاٹ میں مربوط کرنا ،اختراعی اور تشکیلی عمل ہے۔واقعات کو پلاٹ میں منظم کرنے والی قوت،بیانیے کا تھیم یا آئیڈیالوجی ہے۔انھیں باہرکی دنیا سے اخذ بھی کیا جاسکتا ہے اور خود تشکیل بھی دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا مناسب ہے کہ دونوں قسم کے فکشن میں اصل فرق ،فکشن کے عناصر میں سے ایک یا زیادہ کا دوسرے عناصر پر حاوی ہونا ہے۔
اب اگر غور کریں تو مقالے کے آغاز میں جن دو سوالات کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے پہلا سوال(فکشن کا زندگی سے رشتہ) نقل یا مائی می سس سے متعلق ہے اور دوسرے سوال (فکشن کی شعریات) کا تعلق واقعہ نگاری یا ڈائی جی سس سے ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ایک طویل عرصے تک فکشن میں مائی می سس کا زاویہ نظر حاوی رہا اور فکشن کو زندگی اور اس کے تجربات و مسائل کی ترجمانی کے حوالے سے سمجھنے اور جانچنے کا میلان غالب رہا اور اب ڈائی جی سس کے زوایہ نظر نے اپنی موزونیت کو باور کرایا ہے اور فکشن کی شعریات اور اس کی رسمیات و ضوابط کودریافت اور طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
روسی ہیئت پسندی اور ساختیات سے قبل فکشن کی تنقید میں یہ بات عقیدے کا درجہ رکھتی تھی کہ فکشن (بالخصوص ناول اور افسانے)کا زندگی سے گہرا ،اٹوٹ رشتہ ہے اور فکشن کا زندگی کے بغیر اور زندگی سے الگ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اٹھارویں کے کلاراریو(Clara Reeve)نے اپنی کتاب "Progress of Romance"(۱۷۸۵ء) میں لکھا:
"The novel is a picture of real life and manners, and of time in which it is written."
اور اس سے ایک صدی بعد ہنری جیمز نے ۱۸۸۴ء میں اپنے مشہور مقالے ’’فکشن کافن‘‘ میں یہ رائے دی:
’’ناول کی وسیع ترین تعریف یہ ہے کہ وہ زندگی کا ذاتی اور براہ راست تاثر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اس کی قدر وقیمت مقرر کرتی ہے۔ اگریہ تاثر پوری شدت سے بیان ہو گیاتو ناول کام یاب ہے اور اگر کمزور رہا تو اسی اعتبار سے ناول کم زور اور ناکامیاب ہو گا!‘‘(ترجمہ جمیل جالبی)
اور بیسویں صدی میں ڈی ایچ لارنس نے بھی اسی سے ملتی جلتی رائے دی:
’’فن (فکشن)کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گردو پیش میں پائی جانے والی کائنات کے مابین جو ربط موجود ہے، اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے۔ ‘‘(ترجمہ مظفر علی سید)
فکشن کے دیگر مغربی نقادوں لباک، ای ایم فاسٹر، ہیری لیون، فرینک کرموڈ، آرسٹیگ آئن واٹ اور رینے ویلک وغیرہ نے بھی اسی قسم کی آرا دی ہیں۔ ان سب کے افکار کا خلاصہ یہ ہے کہ فکشن ہماری حقیقی زندگی کا ترجمان ہوتاہے۔ جو تجربات، سانحات اور واقعات ہمیں روز مرہ زندگی میں پیش آتے ہیں، فکشن انھی کو لکھتا ہے۔ یوں ہم فکشن کے ذریعے اپنی گزری اور گزررہی زندگی کی باز آفرینی کرتے ہیں۔ فکشن ہمارے ماضی اور حال کا آئنہ ہوتا ہے۔ افسانوی تنقید نے بیسویں صدی کے اوائل تک اگر یہ موقف اختیار کیے رکھا ہے (اور فکشن اور زندگی کے رشتے سے متعلق سوال ہی کو پیش نظر رکھا ہے)تو اس کی ایک تاریخی وجہ بھی ہے۔ اٹھارویں صدی میں مغرب میں جب ناول وجود میں آیا تو اسے ’’رومانس‘‘سے ممیز کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی(جیسے ہمارے یہاں ناول اور داستاں میں امتیاز کی ضرورت محسوس کی گئی)۔ رومانس کہانی کی وہ قسم تھی جو عہد وسطیٰ میں رائج اور مقبول تھی اور جس میں عشق اور مہم جوئی کے فرضی قصے بیان کیے جاتے تھے۔ ا س کے مقابلے میں ناول کا لفظ کہانی کی اس نوع کے لیے برتا گیا جس میں حقیقی زندگی کے واقعات کو بیان کیا گیا ہو۔ رینے ویلک نے واضح کیا ہے کہ ناول کا جنم غیر افسانوی بیانیوں(جیسے خطوط، جرنل، یاداشتیں، آپ بیتیاں اور توزک وغیرہ)سے ہوا ہے۔ گویا رومانس فرضی، تخیلی اور شاعرانہ ہے اور ناول حقیقی، سوانحی اور تاریخی ہے۔ رومانس میں انسانی تخیل آزاد ہوتا ہے اور نئے اور انوکھے قصے گھڑ سکتا ہے، جب کہ ناول میں تخیل خارجی واقعات و حقائق کی لسانی تشکیل کا پابند ہے۔ برسبیل تذکرہ اُردو میں داستان اور ناول میں جو امتیاز کیا گیا، وہ کم وبیش اسی بنیاد پر تھا۔
عام طورپر یہ کہا گیا ہے کہ داستان (یارومانس) سے ناول کی طرف سفر دراصل ہمارے تصورِ کائنات میں تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ داستان اس تصورِ کائنات کی پیداوار ہے جو کائنات کی حرکت کو دائروی اور اسے تقدیر کا پابند قرار دیتا ہے۔اس تصور کے مطابق کائنات میں ہونے والے واقعات دہراے جاتے ہیں۔لہٰذا کائنات میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوتی ؛ہر شے اپنی مقررہ حالت پہ قایم رہتی ہے؛جب اس کی جگہ دوسری شے لیتی ہے تو وہ پہلی شے کی نقل کرتی ہے۔نیز کائناتی عناصر، کائنات کی اس دائروی حرکت میں دخل انداز نہیں ہوتے۔دوسرے لفظوں میں یہ عناصر قوتِ ارادی سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ دی گئی لکیر پر چلنا جانتے ہیں،لکیر کو توڑنے اورکوئی دوسری لکیرکھینچنے پر قادر نہیں ہوتے۔ چناں چہ آپ دیکھیے کہ داستانوں کے کرداروں کے اوصاف مستقل اور غیر متغیر ہوتے ہیں ۔ان میں شروع سے آخر تک کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔تبدیلی کے لیے قوتِ ارادی یا باہر کے واقعات سے فعال طور پر اثرپذیر ہونا ضروری ہے۔یہ دونوں باتیں باغ و بہار کے چاروں درویشوں اورطلسم ہوش ربا کے میں پائی جاتی ہیں۔ اسی بنا پر داستانی کردار فنّی سطح پر جامد ہوتے ہیں۔تاہم واضح رہے کہ داستانی کرداروں کا جامد ہونا ،داستان کی شعریات کی ر’و سے نقص نہیں،ان کا خاصہ اور پہچان ہے۔اسی طرح داستانوں کے واقعات، اتفاقات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ داستانوں میں حیرت و طلسم بڑی حد تک ’’اتفاقات کی منطق‘‘ کانتیجہ ہوتے ہیں(بالکل ویسے ہی جیسے تقدیر کا عمل ہوتا ہے۔) اور یہ منطق داستان کے پلاٹ کو منظم اور علت و معلول کے رشتے کا پابند نہیں ہونے دیتی ۔یہ بھی نشانِ خاطر رہے کہ داستانی پلاٹ کی ’علت و معلول ‘ سے علاحدگی ،داستان کا فنی نقص نہیں ،اس کی شعریات کا اصول ہے۔
داستان کے مقابلے میں ناول ایک دوسرے تصورِ کائنات کا ثمرہ ہے۔ اس تصورِ کائنات کے مطابق کائنات کی حرکت مستقیمی ہے۔ یہ انسانی شعور کے لیے قابل فہم ہے اور اسی بناپر انسانی ارادہ اسے بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا کائنات میں تبدیلی اور ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے اور اس عمل کی رفتار اور جہت پر انسانی مقاصد اور ارادوں کے اثرات واضح ہوتے ہیں۔اسی تصورِ کائنات سے ماخوذ ہونے کا نتیجہ ہے کہ ناول کے کردار ارتقا پذیر ہوتے ہیں:امراؤ جان ادا ایک عام لڑکی سے طوائف بن جاتی اور طوائف کے طور پر باقاعدہ شخصیت رکھتی ہے یعنی اپنے ارادے سے عمل کرتی اور دوسروں کے اردوں کے مقابلے میں اپنے ارداے کا حصار تعمیر کر لیتی ہے۔اس طرح کردار کا ارتقا ناول (اور افسانے)کی شعریات کا اہم اصول ہے ۔اگر کہیں یہ ارتقا موجود نہیں(جیسے نذیر احمد کے ناولوں میں ) تو ایک فنی نقص ہے۔مدوّر اور چپٹے کردار عمدہ افسانوی کردار ہیں ؛جامد اور سٹیریو ٹائپ کردار ناقص افسانوی کردار ہیں۔مذکورہ تصورِ کائنات سے اثر پذیری کے باعث ہی ناول کے واقعات میں علت و معلول کا رشتہ ہوتا ہے اور نتیجتاً ناول کا پلاٹ گٹھا ہوا اور منظم ہوتا ہے۔ ناول میں اگر کہیں یہ رشتہ کم زور ہے تو اسے بھی ناول کی فنی خامی شمار کرنا چاہیے۔داستان سے ناول کی طرف مکمل پیرا ڈایم شفٹ ہے!
بر سبیلِ تذکرہ ،ناول اور افسانے کے کرداروں کی ارتقائی نوعیت اور پلاٹ میں کارفرما علت و معلول کی کیفیت کو معاصر تصورِ کائنات کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔امراؤ جان کے ارتقا اور گوتم نیلمبر کے ارتقااور (میرا گاؤں کے)بھا اسلم کے ارتقا کی نوعیت کا مطالعہ ،حرکت و تغیر کے معاصرتصورات کے تناظر میں کیا جانا چاہیے۔
اس طور داستان اور ناول میں جو فرق کیا گیاہے ، وہ دراصل مثالیت و تخیل اور حقیقت و عقلیت کا فرق تھا۔ مرزا ہادی رسوا سے لے کر شمس الرحمن فاروقی تک اردو نقادوں نے ناول کاامتیازی وصف حقیقت نگاری ہی قرار دیا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، فکشن (بالخصوص ناول) نے ابتدا ہی سے حقیقت کی ترجمانی کو اپنا فریضہ خیال کیا۔ فکشن کی اس بنیاد ی تخلیقی جہت کو نظر ی بنیاد حقیقت نگاری کے نظریے(اور تحریک)نے مہیا کی۔ حقیقت نگاری کا نظریہ انیسویں صدی میں فروغ پذیر ہوا(دیگر جدید ادبی تحریکوں اور نظریات کی طرح اس کی ابتدا بھی فرانس میں ہوئی)۔ حقیقت نگاری کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ فکشن معاصر زندگی کی سچائیوں کو پیش کرتا ہے اورزندگی کی سچائیوں میں اس عہد کی سماجی، سیاسی، معاشرتی صداقتیں شامل ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فکشن کا کام ’’چاہیے‘‘کے بجائے’’ہے‘ ‘کو پیش کرنا ہے۔ یوں حقیقت نگاری، زندگی سے متعلق آرزومندانہ تصورات کے بجائے حقیقی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو پیش کرتی ہے اور اصولی طور پر انسان کی تخیلی زندگی سے زیادہ اس کے خارجی احوال قلم بند کرنے پر زور دیتی ہے اورفکشن کو ذات کا اظہار نہیں، حیات کا بیانیہ قرار دیتی ہے۔
اس ضمن میں اہم سوال یہ ہے کہ فکشن ،حقیقت کی صاف سچی اور مستندترجمانی میں کام یاب کیسے ہوتا ہے؟حقیقت شے تو نہیں کہ اسے فکشن نگار سماجی زندگی سے اچک کر، ناول یا افسانے کی پلیٹ میں سجا کر پیش کردے۔نیز کیا حقیقت جیسی ’’باہر ‘‘ہے، اسے ویسا ہی فکشن کے بیانیے میں پیش کرنا اور قابل محسوس بنانا ممکن ہے اور ہے تو کیوں کر؟عام طور پر حقیقت نگاری کے نظری مباحث میں اسی سوال کو نظر انداز کیا گیا اور اسے ایک طے شدہ امربلکہ فنی عقیدہ خیال کیا گیا کہ فکشن معاصر صداقتوں کو پورے اعتماد اور استناد کے ساتھ پیش کرنے پر قادر ہے۔ لہٰذا کسی ناول کے اچھے یا برے ہونے کا معیار یہ سمجھا گیاکہ وہ کس حد تک ہم عصر زندگی کا بیانیہ ہے اور یہ سوچنے کی زحمت کم ہی کی گئی کہ فکشن کو زندگی کا بیانیہ بننے کے لیے ’’اولاً و آخراً‘‘زبان پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔ خارجی واقعہ یا صورتِ حال فکشن میں دراصل لسانی تشکیل ہی ہوتا ہے۔ حقیقت نگاری کو جب یہ ادراک ہوتا ہے کہ حقیقت اور فکشن کے درمیان زبان موجو دہے تو اسے زبان، فکشن اور حقیقت کے تعلق سے ایک خاص موقف اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اولاً یہ دیکھا جاتا ہے، آیا زبان کسی مشاہدے، تجربے یا واقعے کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کر بھی سکتی ہے یا نہیں، یعنی کیا زبان شفاف میڈیم ہے یا نہیں؟حقیقت نگاری فطری طور پر زبان کو شفاف میڈیم تسلیم کرنے پر مجبور ہوتی ہے اوریہ موقف اختیار کرتی ہے کہ جب کوئی خارجی حقیقت زبان میں پیش ہوتی ہے تو وہ بدلتی نہیں۔ زبان ترجمانی کے عمل میں غیر جانب دار رہتی ہے۔ مگر کیا واقعی؟حقیقت نگاری اس سوال کا مبہم سا احساس تو رکھتی ہے ،مگر اس سے آنکھیں چار کرنے سے گریز کرتی ہے ۔اسی مبہم احساس کا نتیجہ ہی ہے کہ حقیقت نگاری ان ’’تدبیروں‘‘کی تلاش کرتی اور بروئے کار لاتی ہے، جن کی مدد سے فکشن میں حقیقت کی بے کم و کاست ترجمانی کی جا سکے۔ ایک اہم تدبیر اس ضمن میں یہ ہے کہ فکشن کا قاری یہ بھول جائے کہ وہ کسی واقعے یا صورتِ حال کا بیان پڑھ رہا ہے؛ وہ یہ محسوس کرے کہ واقعے کابیان درمیان میں موجود ہی نہیں؛اس کے حواس براہ راست واقعے سے دو چار بلکہ ہم کنار ہیں۔ ’’متن فراموشی‘‘کا یہ عمل ایک حد تک قاری کے فعال متخلیہ کا مرہون ہے اور بڑی حد تک حقیقت نگار مصنف کی لسانی و اسلوبی تدبیروں اور افسانوی تکنیکیوں پر منحصر ہے اور اس ضمن میں واحد متکلم اور ہمہ بیں ناظرکے ’’پوائنٹ آف ویو‘‘ سے بطور خاص کام لیا جاتا ہے۔ واحد متکلم کے صیغے میں لکھی گئی کہانی قاری کو اس گمان میں جلد مبتلا کر دیتی ہے کہ وہ فاصلے پر بیٹھا ہوا تماشائی نہیں، خود کہانی کے عمل میں شامل ہے۔ کہانی میں ’’میں‘‘کی برابر موجودگی کا احساس قاری کو یہ بات بھلانے کی زبردست ترغیب دیتا ہے کہ کہانی کے ’’میں‘‘سے قاری کی الگ کوئی شخصیت یاانا ہے۔ چناں چہ واحد متکلم میں لکھی گئی کہانی حقیقت کاتاثر ابھارنے میں خاصی کام یاب ہوتی ہے۔ اسی طرح’’ہمہ بیں ناظر‘‘(Omniscient Narrator)کے ’’پوائنٹ آف ویو‘‘ سے لکھی گئی کہانی بھی حقیقت سے قاری کی حسی اور شش جہات قربت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ کہانی میں جب داخلی اور خارجی، سماجی اورنجی، واقعاتی اور نفسیاتی زندگی کا ہر پہلو قاری کی گرفت میں آجاتا ہے تو وہ ’’بیانِ واقعہ‘‘ کو بھول کر ’’واقعے‘‘میں کھو جاتا ہے۔
بیانِ واقعہ کو بھلانے اور واقعے کو برابر یاد دلاے رکھنے میں قاری کا یہ ایقان بھی اہم کردار ادا کرتا ہے کہ بیان اور واقعے میں فاصلہ موجود نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ایقانکیوں کر پیدا ہوتا ہے؟اس کے لیے ایک طرف اسعمومی راے کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی جاتی ہے کہ فکشن اور زندگی میں سرے سے کوئی فاصلہ موجود نہیں اور دوسری طرف فکشن میں ان بیان کنندوں اور بیانیہ لہجوں اور ان اسالیب کو کام میں لایا جاتا ہے جو بے حد مانوس ہوتے ہیں:یا تو ارد گرد کی زندگی سے یا افسانوی روایت سے۔اس ایقان پر ضرب اس وقت لگتی ہے جب فکشن میں کسی طرح بیانیہ عمل کو پیش منظر میں لا کر اسے واقعے کے متوازی لا کھڑا کیا جاتا ہے۔
حقیقت نگاری نے مجموعی طور پر فکشن میں بیانیے(narration)کے عمل اور زبان کی موجودگی و کارکردگی کے سوال کو دبایا(repress)ہے اور جہاں کہیں بیانیے کے لسانی عمل ہونے کا ادراک کیا ہے، وہاں بھی حقیقت اور زبان کے رشتے کے پے چیدہ سوال پر غور کرنے سے گریز کیا ہے اور اس بات کو ایک سادہ سچائی کے طور پر قبول کیا ہے کہ زبان خارجی حقیقت کی ترجمانی کا موثر وسیلہ ہے اور (جیسا کہ پہلے ذکرہوا) ان لسانی و بیانیہ تدبیروں کو تلاش کرنے اور انھیں برتنے کی کوشش کی ہے جو حقیقت کی ترجمانی ٹھیک ٹھیک طور پر کر سکیں اور بیانیے کے عمل کو حقیقت کے مساوی اور متبادل بنا سکیں۔
روسی ہیئت پسندوں نے پہلی دفعہ فکشن کو زندگی (اور خارجی حقیقت)سے الگ کر کے دیکھا اور اس امر کو باور کرانے کی سعی کی کہ فکشن کی ایک اپنی حقیقت ہے اور وہ کسی دوسری اور خارجی حقیقت پر منحصر نہیں۔ مثلاً شکلووسکی نے قطعیت کے ساتھ کہا:
"Art was always free of life and its colour never reflected the colour of the flag which waved over the fortress of the city."
آرٹ (فکشن)کی زندگی سے علاحدگی کا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ اس کے اپنے مخصوص ضابطے، قوانین (اور ہیئت) ہیں، جو آرٹ کوبہ طور آرٹ قائم کرتے اور اسے جداگانہ شناخت دیتے ہیں۔ آرٹ یا فکشن اپنی شناخت اور قیام کے لیے زندگی کا نہیں، خود اپنے ہیئتی ضابطوں اور رسمیات کا دست نگر ہے۔ دوسرے لفظوں میں معاصر زندگی کی سچائیوں کے علاوہ، تخیلی اور اختراعی وقوعوں کا بیان، فکشن ہو سکتا ہے اگر ان وقوعوں کو فکشن کی مخصوص شعریات کے تحت پیش کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی کا حقیقی واقعہ یا کوئی صداقت فکشن کا حصہ نہیں بن سکتی، بالکل بن سکتی ہے؛ فکشن کے شعریاتی قوانین کی پابندی سے ۔گویا اولیت حقیقت یا حقیقتِ واقعہ کو نہیں، ہیئت کو ہے۔اگر یہ ہیئت موجود نہیں اور باقی سب کچھ ہے تو فکشن قایم نہیں ہو سکتا۔ اس زاویے سے دیکھیں تو فکشن (اور ادب) کا مواد دراصل ہیئت کا حصہ اور ہیئت پر منحصر ہو جاتا ہے۔ ٹیرنس ہاکس نے روسی ہیئت پسندی کی اس جہت کے متعلق لکھا ہے:
"Content is a function of literary form, not somthing separable from it, parceptible beyond it or through it."
گویا جو کچھ ہے، وہ ہیئت ہے۔ ادب کے تمام اجزا و عناصر ہئیت کی وجہ سے، ہئیت کی رو سے اور ہیئت کے تحت وجود رکھتے ہیں۔ اسی بات کو وکٹر شکلووسکی نے اس طور بیان کیا کہ آرٹ کی بنیادی خصوصیت’اجنبیانا‘(Defamiliarization)ہے۔ آرٹ سے باہر زندگی اور اس کی حقیقتیں، زبان، اظہار کے اسالیب وغیرہ اپنی مخصوص پہچان رکھتے ہیں،مگر جب وہ آرٹ کے منطقے میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے مخصوص ہیئتی حربے اور قوانین انھیں اجنبی بنا دیتے ہیں؛ بدل دیتے ہیں اور انھیں نئی صورت دے دیتے ہیں اور یہ صورت آرٹ سے باہر پرورش پانے والے شعور کے لیے نامانوس ہوتی ہے۔ (اسی لیے ادب کے قاری کو اپنے عقائد، تعصبات، تصورات، نظریات کو معطل کرنا پڑتا ہے)۔ ایک زاویے سے اجنبیانے کاعمل حقیقت کو مسخ کرنے کا عمل بھی ہے کہ یہ حقیقت کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کی بجائے اسے نامانوس اور مختلف صور ت میں پیش کرتا ہے۔ ہئیت پسندوں سے حقیقت نگاروں اور ترقی پسندوں کے اختلافات کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی،مگر ہیئت پسندوں کا موقف تھا کہ اگر ادب کو سائنسی طریقوں سے واضح کرنا ہے؛اس کی حقیقت کا ’مستند‘ علم حاصل کرنا ہے؛اس کی روح تک غیر مشتبہ انداز میں رسائی حاصل کرنی ہے تو پھر اسے قبول کیے بنا چارہ نہیں کہ ادب اصلاً ایک ہیئت ہے اور ہیئت اسلوبی و لسانی حربوں اور مخصوص ضابطوں اور قوانین سے عبارت ہے۔
ہیئت پسندی کی روایت میں فکشن کی شعریات پر سب سے اہم کام ولادی میر پراپ کا ہے۔ اس نے اپنی کتاب ’’مارفالوجی آف فیری ٹیلز‘‘ میں فکشن /بیانیے کی اس ساخت /ہیئت کو مرتب صورت میں پیش کیاہے جو تمام بیانیوں میں کارفرما ہوتی ہے؛جو انھیں بیانئے کے طور پر قائم کرتی ہے اور جس کی وجہ سے بیانیہ اپنی منفرد شناخت بنانے میں کام یاب ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بیانیوں کی کثرت ہے؛دنیا میں متعدد کہانیاں موجود ہیں مگر’’کچھ ایسا‘‘ بھی موجود ہے جو کثرت اور تعدّد کو وحدت کے رشتے میں پروتا ہے۔ اس’ وحدت کی وجہ سے ہی انھیں بیانیہ قرار دیا جاتا ہے۔ ‘یہ ’’کچھ ایسا‘‘ دراصل بیانیے کی ساخت یا ہیئت یا شعریات ہے۔ لہٰذا اگر شعریات مرتب ہو جائے تو اس اصل الاصول کو گرفت میں لیا جا سکتا ہے، جو بیانئے اور غیر بیانیے، ادب اور غیر ادب، فکشن اورنان فکشن میں حد فاصل قایم کرتا ہے۔ پراپ نے اسی اصل الاصول کو فیری ٹیلز سے دریافت و مرتب کیا ہے اور ان کہانیوں کو اس لیے منتخب کیا ہے کہ یہ کہانیاں اس کے نزدیک تمام قسم کے بیانیوں کا پروٹو ٹائپ ہیں۔انھی کی ’’روح‘‘تمام بیانیوں میں موجود ہے۔ پراپ چوں کہ بیانیے کے اصل الاصول تک پہنچنا چاہتا ہے، اس لیے وہ کرداروں اور واقعات اور ان کے روابط تک محدود نہیں رہتا، وہ ان قوانین تک رسائی کی کوشش کرتا ہے جو کرداروں اور واقعات کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔ انھیں وہ فنکشن (Function)کا نام دیتا ہے اور فنکشن کی تعریف یوں کرتا ہے:
"An act of character defined from the point of veiw of its significance for the course of action."
یعنی فنکشن یا وظیفہ کردار کا وہ عمل ہے جسے کہانی کے واقعاتی سلسلے میں اس کی اہمیت(اور ضرورت) کے نقطہ نظر سے واضح کیاجائے۔ سادہ لفظوں میں کہانی واقعاتی سلسلہ ہے، اسے کردار اپنے عمل سے آگے بڑھاتے یا کسی خاص رخ میں لے جاتے ہیں۔ لہٰذاکردار نہیں، اس کا عمل زیادہ اہم ہے اور عمل کی معنویت اپنے طور پر نہیں، کہانی کے واقعاتی سلسلے کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے قایم ہوتی ہے۔ اس طور پراپ نے کہانی کی ساخت میں فنکشن کو بنیادی اہمیت دی(یوں بھی ہیئت پسندی کہانی کے سارے مواد کو جس میں کردار، واقعات سب شامل ہیں، ہیئت کا فنکشن قرار دیتی ہے)۔ اس نے کہانی کے اکتیس فنکشنز(جن کی تفصیل کا یہ محل نہیں)اور ان کے سات دائرہ ہائے عمل بتائے ؛وہ یہ ہیں:
"The villain, the doner (producer), the helper, the princess and her father, the dispatcher, the hero, the false hero."
پراپ کا خیال ہے کہ ہر کہانی ،عمل کے انھی دائروں (Sphere of action)سے عبارت ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ولن، ہیرو، شہزادی یا مددگار کوکردار کے بجائے فنکشن کا نام دیتا ہے۔ شاید اس لیے کہ روایتی طور پر کردار انفرادیت کا نام ہے؛ہر کردار کی ایک اپنی شخصیت ہوتی ہے مگر کہانی کے عمل میں کردار کی شخصیت سے زیادہ اس کا عمل اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً’’ہیرو‘‘ ایک فنکشن ہے جو ’’ایڈی پس ریکس‘‘ میں ایڈی پس ’’ہیملٹ‘‘میں ہیملٹ اور’’راجہ گدھ‘‘ میں قیوم کی شخصیت کو کنٹرول کیے ہوئے ہے۔ یہ تینوں اپنی جداجدا شخصیت کے مالک ہیں۔ ایڈی پس، باپ کے قتل اور ماں سے شادی کا ’’گناہ‘‘ نادانستگی میں کرنے والا شخص ہے، ہیملٹ اپنے باپ کے قتل سے دکھی، ماں کے رویے سے غم زدہ اور انتقامی جذبے سے تڑپنے والا ’’فرد‘‘ ہے۔ جب کہ قیوم جدید عہد کی زندگی، انسانی رشتوں اور خواہشات سے پیدا ہونے والی بے معنویت سے آگاہ اور دکھی آدمی ہے،مگر مذکورہ تینوں بیانیوں میں ان کی انفرادی شخصتیں نہیں، بہ طور ہیرو ان کا عمل اہم ہے۔ یعنی یہ ان کی انفرادی شخصتیں نہیں جو بیانیے کے عمل کو آگے بڑھاتی ہیں، یہ کہانی کی مجموعی صورتِ حال میں ان کا دائرہ عمل یعنی’’ہیرو ‘‘ہے جو کہانی کو کہانی کے طور پر قائم رکھتا اور اسے آگے بڑھاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کہانیوں میں دائرہ عمل تو متعین رہتا ہے، مگر اس میں داخل ہونے والی شخصیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ پراپ کے خیال میں ایک کردار کئی دائروں میں اور کئی کردار ایک دائرے میں متحرک ہو سکتے ہیں۔ کہانیوں میں دائرہ ہائے عمل تو محدود اور مقرر ہیں مگر کردار اور شخصیتیں بے حساب ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فنکشنر مستقل اور Stableہیں اور وہ اس امر سے آزاد ہیں کہ انھیں کون کس طرح ادا کرتا ہے۔ حتّا کہ ہیرو کے فنکشن کے لیے آدمی کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ ہندی افسانہ نگار امرت رائے کی کہانی ’’اندھی لالٹین‘‘ میں اندھی لالٹین’’ہیرو‘‘ ہے۔ کہانی میں اس کا مرکزی کردار ہے؛وہ ایک گلی کے نکڑ پر کھڑی تماشائے حیات دیکھتی ہے اور قاری کو اپنے تجربے میں شریک کرتی ہے۔ رفیق حسین کے افسانوں کے ’ہیرو‘ آدمی نہیں، جانور ہیں۔
کہانیوں کو فنکشن سے عبارت قرار دینے کا مطلب یہ تھا کہ ایسا تجریدی سسٹم یا ساخت موجود ہے جو تمام کہانیوں میں شامل ہے۔ ایک سطح پر یہ ساخت کہانیوں سے الگ اور آزاد ہے، مگر دوسری سطح پر یہ تمام کہانیوں میں رواں دواں بھی ہے۔ اسے کسی ایک کہانی سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا(انھی معنوں میں یہ الگ اور آزاد ہے) مگر کسی مخصوص کہانی کو اس کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقتاً یہ وہی تھیوری ہے جو سوئیر نے اپنی لسانی تحقیقات میں لانگ اور پارول کے نام سے پیش کی تھی۔ لانگ تجریدی نظام ہے اور پارول اس نظام کا تجسیمی مظہر۔ ہیئت پسندوں نے دراصل کہانیوں کی لانگ یا گرامر کی جست جوکی اور سمجھا کہ جو رشتہ لانگ کا پارول سے ہے، وہی رشتہ کہانی کی شعریات کا تمام کہانیوں سے ہے۔ (اس حوالے سے اہم ترین کام آگے چل کر فرانسیسی ساختیات پسندوں نے کیا۔)
ہیئت پسندوں(بالخصوص پراپ)کی دوسری اہم یافت’’کہانی(Fabula)اور پلاٹ‘‘(Sjuzhet)کا امتیاز ہے۔ ’’کہانی‘‘سے مراد، واقعات کا مجموعہ ہے جو فکشن میں بیان ہوتا ہے جب کہ ’’پلاٹ ‘‘ ان واقعات کا منظم و مربو ط بیان ہے۔ یعنی ’’کہانی‘‘Events of the narrative اور ’’پلاٹ‘‘manner of their representationہے۔ بیانیے میں دوئی کا احساس ای ایم فاسٹر کوبھی تھا؛ اس نے کہانی اور پلاٹ کے فرق پر لکھا تھا۔ اس نے ناول کی بنیاد کہانی کو قرار دیا اور لکھا:
"The basis of a novel is a story and a story is a narrative of events arranged in time-sequence."
اور پلاٹ کے متعلق یہ رائے دی:
"A plot is also a narrative of events, the emphasis falling on causality."
گویا اس کے نزدیک کہانی، زمانی تسلسل میں بیان کیے گئے واقعات کا نام ہے اور پلاٹ ان واقعات کو زمانی تسلسل کے ساتھ ساتھ علت کے رشتے میں پرونے سے عبارت ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ : ’’بادشاہ مرا پھر ملکہ بھی مر گئی‘‘کہانی ہے اوریہ بیان کہ : ’’بادشاہ مرا تو اس کے غم میں گھل گھل کر ملکہ بھی مر گئی‘‘پلاٹ ہے۔ پہلی صورت میں فقط زمانی ترتیب ہے جب کہ دوسرے بیان میں واقعات کی زمانی ترتیب علت کی بھی پابند ہو گئی ہے۔ فاسٹر نے ہر چند پلاٹ اور کہانی میں فرق تو کیا مگر یہ فرق دراصل ناول اور غیر ناول کا فرق ہے۔ ناول میں پلاٹ کا ہونا ضروری ہے؛ واقعات کا زمانی و علتی نظم میں پیش کیا جانا لازمی ہے۔ اگریہ نظم موجود نہ ہو تو کہانی تو ہوگی (جیسے قدیم حکایات یا داستانی کہانیاں ہوتی ہیں) مگر وہ ناول (اور افسانہ بھی)نہ بن سکے گی جب کہ ہیئت پسندوں نے کہانی اور پلاٹ میں جو فرق کیا، اس کا اصلاً پس منظر سوسئیر کا تصورِ نشان ہے۔ سوسئیر نے لسانی نشان کو (Signifier)اور مدلول (Signified)میں منقسم دکھایا تھا۔ دال، نشانی کا صوتی اور ملفوظی پہلو ہے اور مدلول نشان کا ذہنی وتصوّری رخ ہے۔ دال ظاہر و مجسم ہے اور مدلول نہاں اور تجرید ہے۔ دال کسی شے کی ’’لسانی علامت‘‘ ہے اور مدلول اسی شے کا تصور(notion) ہے۔ اس تقسیم کا اطلاق بیانیے پر کیا جائے تو پلاٹ دال کے مترادف ہے اور کہانی مدلول کے مساوی۔ جس طرح دال، مدلول کی ایک طرح سے تجسیم اور نمایندگی کرتا ہے، اسی طرح پلاٹ، کہانی کی تجسیم اور نمایندگی کرتاہے۔ لہٰذا کہانی وہ بنیادی مواد ہے جسے بیانیہ، تصرف میں لاتا اور پلاٹ کی تشکیل کرتا ہے۔ فاسٹر نے کہانی اور پلاٹ میں اصل فرق علتیت(causality)کو قرار دیا تھا مگر ہیئت پسندوں نے پلاٹ کا اس سے کہیں بہتر تصور پیش کیا اور اس میں بیانیے کی تکنیک، طرز واسلوب، سب شامل کیا۔ نیز اس بات پر زور دیا کہ ناول اور افسانہ بیک وقت کہانی اور پلاٹ رکھتا ہے۔
یہ اعتراف ضروری ہے کہ کہانی اور پلاٹ کے امتیاز کے ضمن میں تفصیلی کام فرانسیسی ساختیات پسندوں نے کیا۔ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے روسی ہیئت پسندوں کے وضع کردہ ’’بیانیہ ماڈل‘‘ ہی کو بنیاد بنایا۔ فرانسیسی ساختیات میں ہیئت پسندی کے علاوہ سوسئیر کے لسانی ماڈل کو بھی برابر پیش نظر رکھا گیا اور فکشن کی شعریات کی تدوین کو ایک نئے ’’ڈسپلن‘‘ کا درجہ دینے کی کوشش کی گئی، جس کا نام بیانیات یعنی Narratologyرکھا گیا۔ یہ نام سب سے پہلے تودوروف(Tzvetan Todorov)نے ۱۹۶۹ء میں اپنی کتاب (Grammaire du Decameronمیں استعمال کیا اور اس سے مراد ’’بیانیہ /فکشن کی سائنس‘‘(Science of Narrative)لیا۔ تاہم تو دو روف سے پہلے لیوی سٹراس اور اے جے گریماس، بیانیے کی سائنس کے حوالے سے اپنے کام میں مصروف تھے۔ لیوی سٹراس نے اساطیرِ عالم کے عقب میں بنیادی اسطور کی تدوین کی طرف توجہ دی، پر اپ کی پیروی کرتے ہوئے جس نے پریوں کی کہانیوں کے بطون سے بنیادی کہانی دریافت کرنے کی کوشش کی تھی۔ گریماس نے توپر اپ کے کام ہی کو آگے بڑھایا اور بیانیے کا Actantial Modelکے نام سے جو ماڈل پیش کیا، وہ دراصل پراپ کے فنکشن کے نظریے ہی سے ماخوذ تھا۔
گریماس نے بیانیے کی اس گرامر کو مرتب کرنا چاہا، جو تمام بیانیوں کی روح رواں ہے۔ گرامر کا لفظ استعاراتی مفہوم میں اور اتفاقاً استعمال نہیں ہوا۔ گریماس اور ان کے بعد رولاں بارت، تھامس پاول، جیرالڈپرنس اور سب سے بڑھ کر ژرار ژینث نیز وولف گینگ قیصر، فرانز سٹاترل، وولف سمڈ اور مائیک بال نے فکشن یا بیانیے کا مطالعہ بہ طور ’’زبان ‘‘ کے کیا ہے۔ جس طرح ساختیاتی لسانیات کا ماہر زبان کی گہری ساخت/گرامر تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح ان لوگوں نے بھی بیانیے کی گہری ساخت کو دریافت اور مرتب کرنے پر توجہ دی۔ گویا بیانیے کو زبان کے مماثل سمجھا۔ ایک تو اس لیے کہ بیانیہ ہے ہی زبان یعنی کسی نہ کسی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ سمجھا گیا کہ زبان کی ساخت اور زبان کا تفاعل از خود بیانیے میں در آتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ زبان ایک نشا نیاتی نظام(System of Signification)ہے اور بیانیوں میں بھی معنی خیزی کا تہ نشیں نظام موجود ہوتا ہے۔ سوسئیر اور رومن جیکب سن نے زبان میں اضدادی جوڑوں(Binary Opposites)کی نشان دہی کی تھی۔ گریماس نے اسے بالخصوص اہمیت دی اور واضح کیا کہ زبان معنی کی ترسیل میں اس لیے کام یاب ہوتی ہے کہ اس میں ’’ضد‘‘اور ’’فرق‘‘موجود ہیں۔ سوسئیر نے کہا تھا کہ زبان میں افتراقات (differences) کے سوا کچھ نہیں۔ ہر لسانی نشان اس لیے کسی معنی کی ترسیل کرتا ہے کہ وہ صوتی و تکلمی سطح پر دوسرے نشانات سے مختلف ہے۔ گریماس نے بھی یہی بات کہی کہ ہم ہر شے کو اس کی ضد سے شناخت کرتے ہیں؛ رات کو دن، عورت کو مرد اورانسان کو جانور کی ضد سے پہنچانتے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہPerception of Oppositionہر بیانیے کی تہ نشین ساخت میں بھی موجود ہے۔ وہ دیگر ساختیاتی مفکرین کی طرح اس بات کا قائل تھا کہ یہ تخالف مواد کا نہیں، ہیئت کا ہے یعنی تخالف و تضاد کا تعلق ان اشیا سے نہیں جن کا ہم ادراک کرتے ہیں؛خود ہمارے لسانی طریقِ ادراک میں تخالف موجود ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جانور ہی اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انسان کی کامل ضد ہو، یا عورت اپنے جملہ اوصاف کے لحاظ سے مرد سے مختلف ہومگر ہمارا لسانی اور معنیاتی نظام دونوں کی الگ الگ شناخت کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کی ضد بنا کر پیش کرتا ہے اور ہر ضد میں فریق مخالف کی نفی بھی موجود ہوتی ہے۔ گریماس نے بیانیوں میں بھی اضدادی جوڑوں کو کارفرما دیکھا اور یہ جوڑے بیانیوں کے مواد میں نہیں ہیئت میں دکھائے گئے ،یعنی ’کہانی‘ میں نہیں’’پلاٹ‘‘ میں یابیانیے کی ساخت میں!گویا فکشن کی ہیئت زبان کی طرح اور اس کا مواد دنیا کی طرح ہے اور فکشن اپنے موادکا’ادراک‘اسی طرح اضدادی جوڑوں میں کرتا ہے،جس طرح ہم زبان کے ذریعے دنیا کا ادراک اضدادی جوڑوں میں کرتے ہیں۔ گریماس نے پراپ کے فنکشن کے سات دائرہ ہائے عمل کو تین اضدادی جوڑوں میں سمیٹ کر پیش کیا، جو یہ ہیں:
۱۔ موضوع بہ مقابلہ معروض(Subject versus Object)
۲۔ مرسل بہ مقابلہ وصول کنندہ (Sender versus Receiver)
۳۔ حامی بہ مقابلہ مخالف(Helper versus Opponent)
گریماس نے انھی کو ’’عامل‘‘(Actants)کا نام دیا تھا۔ گویا گریماس بھی ’’عامل‘‘سے مراد کردار نہیں، وہ تفاعل یا وظیفہ لیتا ہے جو ایک یا زاید کرداروں کو کنٹرول کرتا ہے۔ بیانیوں میں بھی کئی کردار اور اشخاص ہوتے ہیں ۔وہ کچھ اعمال سر انجام دیتے ہیں؛ یہ اعمال جن حدود میں انجام پاتے ہیں، ان کا تعین یہی ’’عامل‘‘ کرتے ہیں اور ہر ’’عامل‘‘ کی ایک ضد ہے:موضوع یا ہیرو کا ایک ہدف ہے، اس ہدف کی تلاش، ہیرو کو متحرک رکھتی ہے۔ یوں ہیرو کے تمام افعال (اور پھر کہانی کے واقعات)ہدف تک پہنچنے کے مساعی کانتیجہ ہوتے ہیں۔ ہدف کے ساتھ تخالف کا رشتہ ہیرو کی ساری فعالیت کا ذمے دار ہوتا ہے۔ مثلاً بیش تر داستانوں میں شہزادے کسی پری جمال کی جست جویا آبِ حیات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’باغ و بہار‘‘ میں فارس کا شہزادہ، سخاوت میں یکتا، بصرے کی شہزادی کی تلاش میں ہوتا ہے۔اس قصے کا تمام واقعاتی عمل اور شہزادے کو پیش آمدہ صورتِ حال، اسی ایک ہدف(بصرے کی شہزادی)سے کنٹرول ہوتی ہے۔ جدید ناولوں میں یہ تلاش روحانی مفہوم رکھتی ہے، جیسے ہر مین ہیسے کے ناول ’’سدھارتھ‘‘اور پاؤلوکوہلو کے ’’الکمیسٹ‘‘ میں۔
جیسا کہ گذشتہ سطور میں بیان ہوا، فکشن کی نئی تنقید میں (جسے ’’ بیانیات‘‘ کا نام ملا ہے)اہم ترین نکتہ’’کہانی اور پلاٹ کا فرق ‘‘ہے۔ بیانیات کے فرانسیسی ماہروں نے پلاٹ کی جگہ کلامیہ (Discourse)کی اصطلاح برتی ہے اور یہ اصطلاح اس اعتبار سے زیادہ موزوں محسوس ہوتی ہے کہ یہ فکشن کے پورے بیانیہ عمل کا احاطہ کرتی ہے جب کہ پلاٹ بالعموم واقعاتی تنظیم کا مفہوم ادا کرتا ہے۔
کہانی اور کلامیے کے سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں رشتہ کیا ہے ؟کیا کہانی، مواد اور کلامیہ، ہیئت ہے؟ یعنی کیا کہانی پہلے سے، باہر اور آزاد حالت میں موجود ہوتی ہے جسے تخلیقی تصرف میں لا کر مصنف کلامیے کی تشکیل کرتا ہے، یا کہانی کلامیے کے ساتھ ہی وجود میں آتی ہے؟ اس ضمن میں ایک سامنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم فکشن کے مطالعے کے دوران میں ہی کہانی اور کلامیے اور ان کے درمیان موجود فرق کا ادراک کرتے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کہانی اور کلامیہ دونوں ایک ’’تیسری چیز‘‘ یعنی ناول، افسانے، ڈرامے وغیرہ پر منحصر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان میں سے کوئی ایک فی نفسہٖ مکمل اور خود مختار نہیں، یہ اجزاہیں ایک کل کے، جسے بیانیہ (یا اس کی کوئی صنف ناول، افسانہ وغیرہ)کہتے ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بیانیہ کہانی اور کلامیے کا مجموعہ ہے۔ اس بات کو ماننے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کہانی اور کلامیہ ساتھ ساتھ وجود میں آتے ہیں، مگر اسے قبول کرنے میں دقت یہ ہے کہ ہم دو ایسی چیزوں کا ادراک ایک ساتھ کیسے کر سکتے ہیں جن میں فرق بھی موجود ہو!ہمیں ان کے درمیان تخالف، تضاد یا علت و معلول کا، کوئی نہ کوئی رشتہ قائم کرنا ہوگا؛ ایک کو دوسرے کا نقیض یا ایک کو سبب اور دوسرے کو نتیجہ قرار دینا ہوگا۔ تخالف و تضاد کا رشتہ اس بنا پر ناموزوں ہے کہ پھر اس طور کہانی، کلامیے کو یا کلامیہ کہانی کو بے دخل کرتا محسوس ہو گا جب کہ بیانیے کی کلیت کا تقاضا ہے کہ دونوں بہ یک وقت موجود ہوں۔ لہٰذا ایک کو علت اور دوسرے کو معلول قرار دینا مناسب ہے۔ اب اگلا سوال(بلکہ مسئلہ)یہ ہے کہ کسے علت اور کسے معلول سمجھا جائے؟یہ طے کرنا آسان نہیں، اس لیے کہ ہم ان دونوں سے، بیانیے قرات کے دوران میں دو چار ہوتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم کلامیے کو ناول یا افسانے کے اندر اور کہانی کو ان سے باہر دیکھتے ہوں۔ اگرچہ عمومی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ کہانی(واقعات کا سلسلہ)باہر موجود ہوتی ہے، جسے لکھا جاتا ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ جس کہانی کو ہم نے باہر فرض کیا ہے، اس سے ہم اولاً آشنا تو بیانیے کے متن ہی سے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کہانی، لکھے جانے سے پہلے، باہر موجود ہو یا مصنف کے متخیلہ میں وجود رکھتی ہو،ہمیں اس کی موجودگی کی خبربیانیہ متن ہی دیتا ہے۔ یوں اصولی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کہانی، متن کے ذریعے ہی وجود رکھتی ہے۔ بیانیہ متن نہ ہو تو کہانی بھی نہیں۔
کہانی اور کلامیے کے رشتے کے ضمن میں جوناتھن کلر کا خیال ہے کہ کبھی کہانی ،کلامیے کی علت ہوتی ہے اور کبھی کلامیہ ،کہانی کی علت ہوتا ہے۔ کبھی کہانی کا واقعاتی عمل ایک مخصوص ’’بیانیہ کلام‘‘ کو جنم دیتا ہے اور کبھی کوئی خاص ’’بیانیہ کلام‘‘ مخصوص واقعاتی عمل کا سبب بنتا ہے۔ اس امر کی تو متعدد مثالیں ہیں کہ کس طرح ایک بیانیہ ایک مخصوص کہانی یعنی واقعات کے مجموعے کو خام مواد کے طور پر استعمال میں لا کر، وجود میں آیا ہے۔ پرانی داستانیں ہوں یا نئے افسانے اور ناول ہوں، وہ کچھ کرداروں کو پیش آمدہ واقعات اور ان کیباہمی ربطپر استوارہوتے ہیں۔ ان کی مخصوص بیانیہ تکنیک، اسلوب، فضا نگاری، کرداروں کی نفسی کیفیت کا احوال، کرداروں کی باہمی کش مکش کی صورتِ حال، مخصوص مکالمے، یہ سب کہانی سے کنٹرول ہو رہا ہوتا ہے اور اگر کچھ کہانی کے کنٹرول سے باہر ہے تو بیانیہ متن میں وہ ’’فاضل مواد‘‘ ہو گا ،جب کہ کچھ بیانیہ متون ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کہانی کے بجائے’’بیانیہ کلام‘‘ کنٹرولنگ اتھارٹی ہوتا ہے، بالخصوص جدید بیانیوں میں۔ مغرب میں جیمز جوائس اور کافکااور ہمارے یہاں رشید امجد اورمظہرالاسلام کے افسانے بطورخاص اس کی مثال ہیں۔
ژرارژنیث(Gerard Genette)کا نام بیانیات کے نظریہ سازوں میں بے حد اہم ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’بیانیہ کلام‘‘(Narrative Discourse) میں مارسل پروست کے ناول"Remembrance of Things Past"کو سامنے رکھ کر بیانیے کی تھیوری پیش کی ہے۔ (برسبیل تذکرہ شمس الرحمن فاروقی نے اپنی کتاب ’’ساحری، شاہی، صاحب قرآنی، داستان امیر حمزہ کا مطالعہ، جلد اوّل نظری مباحث میں ژنیث کی اس کتاب کو ماڈل بنایا ہے)۔ بیانیات میں ژنیث کی عطایہ ہے کہ اس نے بیانیے میں کہانی اور کلامیے کے علاوہ ایک تیسرے عامل کی نشان دہی کی ہے، جسے اس نے عملِ بیان یا Narrative Actکہا ہے اور اس کی اہمیت کو ان لفظوں میں باور کرایا ہے:
"Without a narrative act, therefore, there is no statement, and somtimes even no narrative content."
ان کا خیال ہے کہ بیانیہ: کہانی، کلامیے اور عملِ بیان کے آپسی رشتوں سے عبارت ہوتا ہے۔ ان کے اس خیال کے پیچھے وہی ساختیاتی بصیرت کام کر رہی ہے جس کے مطابق زبان اور دیگر ثقافتی اعمال، رشتوں کے نظام ہوتے ہیں۔ وہ دیگر علمائے بیانیات کی طرح کہانی کو مدلول اور کلامیے کو دال قرار دیتا ہے: دال جو مدلول کی نماٰٰیندگی کرتا ہے۔ کہانی کی نمایندگی کلامیہ کرتا ہے، مگر ژنیث کے نزدیک کہانی اور کلامیہ ایک دوسرے پر منحصر ہونے کے باوجود ایک تیسرے بیانیہ عامل، یعنی عملِ بیان کے محتاج ہیں۔ اگر عملِ بیان نہ ہو تو کہانی اور کلامیے، دونوں کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ کہانی اور کلامیے میں فرق تو باآسانی ہو جاتا ہے؛واقعے کو بیانِ واقعہ سے ممیز کرنا آسان ہے، مگر عملِ بیان کو گرفت میں لینا اور اسے بیانِ واقعہ سے الگ متصور کرنا آسان نہیں۔ بیانیے میں عملِ بیان کیوں کر ظہور کرتا اور کارفرما ہوتا ہے، اس کی وضاحت ژنیث نے یوں کی ہے:
"The activity of writing leaves in it traces, signs or indices that we can pick up and interpret ____ traces such as the presence of a first person pronoun to mark the oneness of character and narrator, or a verb in the past tense to indicate that a recounted action occured prior to the narrating action."
یعنی کلامیہ تو واقعے کا بیان یا واقعے کی لسانی پیشکش ہے جب کہ ’’عملِ بیان‘‘ وہ نشانات، علامات اور نقوش ہیں جو واقعے کے بیان کے دوران میں ابھرتے چلے جاتے ہیں اور جنھیں بیانیے کی قرات کے دوران میں گرفت میں لیا جا سکتا ہے اور ان کی تعبیر کی جا سکتی ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب بیانیہ تخلیق ہوتا ہے یا ’’عملِ بیان‘وقوع پذیر ہوتا ہے تو کہانی کھلتی چلی جاتی اور کلامیہ متشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان تینوں کی موجودگی اور ان کے مابین باہم کی خبر فقط بیانیے کے تجزییہی سے ہوتی ہے۔ مثلاً یہ مختصر بیانیہ دیکھیے:
’’میں یونیورسٹی ہاسٹل کی کینٹین پر بیٹھا تھا۔ میرے ہاتھ میں چائے کی پیالی اور میری نگاہ سامنے اس بڑے درخت پر تھی جو شام کے ملگجے میں پراسرار لگ رہا تھا، اس کی شاخوں اورپتوں کے درمیانی خلاؤں میں گھستی تاریکی کے آس پاس کہیں پرندوں کی چچراتی آوازیں اسے مزید پراسرار بنا رہی تھیں۔ میں وقفے وقفے سے چائے کا گھونٹ بھرتا اور سوچتا کہ شام اترتے ہی درخت کچھ سوگوار، کچھ متفکر اور بڑی حد تک پراسرار کیوں لگنے لگتے ہیں۔۔۔ ایسا شام کی وجہ سے ہوتا ہے یا ہماری وجہ سے؟ کیا واقعی درختوں پر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے یا محض ہماری اندرونی سوگواری، تفکر کا پروجیکشن ہوتا ہے؟‘‘
اس بیانیہ ٹکڑے میں کہانی، کلامیہ اور عملِ بیان یہ ہوں گے:

کہانی: ایک آدمی یونیورسٹی کینٹین پر شام کی چائے پینے آیا ہے۔ اسے کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا، ا س پر ایک موضوعی کیفیت طاری ہوئی ہے۔
کلامیہ: کردار کا چائے پینے آنا، شام کے وقت درخت کو غور سے دیکھنا اور سوچنا۔ اس بات کی پوری تفصیل اور جزئیات کلامیہ ہیں۔
عملِ بیان: وہ ’’علامتیں‘‘اور نقوش(traces)جو کلامیے کے ساتھ ساتھ ابھرے اور جن کی تعبیر ہم کر سکتے ہیں۔ مثلاً:
(الف)’’میں‘‘کون ہے؟کیا ہاسٹل میں رہنے والا طالب علم ہے؟ کوئی استاد ہے یا مہمان ہے؟ نیز کیا’’میں‘‘مصنف ہے یا کہانی کا محض متکلم ہے؟
(ب)کیا وہ روز شام کے وقت کینٹین پر آبیٹھتا ہے یا پہلی بار آیا ہے؟
(ج)اسے درخت ہی جاذبِ توجہ کیوں لگا؟ کینٹین پر بیٹھے دوسرے لوگ کیوں نہیں؟اس سے کردار کی نفسی حالت کے بارے میں بھی آگاہی ہوتی ہے کہ وہ تنہائی پسند، حساس اور غوروفکر کا عادی ہے، اسے لوگوں سے زیادہ فطرت کی معیت پسند ہے۔
(د)’’بڑا درخت‘‘ سے کیا مراد ہے؟کیا برگد کا درخت ہے؟ اگر برگد کا ہے تو اس کا امکان ہے کہ متکلم کو برگد سے وابستہ عرفان کی اساطیری کہانی یاد آگئی ہو۔ پراسراریت کا ذکر بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(ر)’’گھستی تاریکی‘‘، چچراتی آوازیں، یہ ’’علامتیں‘‘ متکلم کی درخت کے ساتھ ہم دردی کو ظاہر کرتی ہیں۔ وہ تاریکی اور پرندوں کی آوازوں کی تنہائی میں مداخلت کوبے جا خیال کرتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھیں تو ’’عملِ بیان‘‘ ہی بیانیے پر باقاعدہ تنقید (تعبیر و وضاحت) کو ممکن بناتا ہے، مگر ظاہر ہے عمل کا بیان، کلامیے کی وجہ سے ہے اور اس کے ساتھ ہے۔
آگے چل کر ژنیت ان تینوں کے باہمی رشتے پر تفصیلی اور حد درجہ عالمانہ گفت گوکرتا ہے۔ وہ کہانی اور کلامیے اور کلامیے اور عملِ بیان کے درمیان رشتوں کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ کلامیے کو کہانی اور عملِ بیان کے درمیان رکھتا ہے۔ سادہ لفظوں میں کسی ناول یا افسانے کے عقب میں ان کی کہانی موجود ہے۔ ناول، افسانہ خود کلامیہ ہے اور اس میں جا بجا علامتیں اور نقوش بکھرے ہوئے ہیں، جن کا تعلق کہانی سے نہیں، کلامیے سے ہے۔ ژنیث اپنے تجزیاتی عمل میں تین زمرے بناتا ہے۔
پہلا زمرہ وہ ہے جو کہانی اور بیانیے کے درمیان زمانی رشتوں سے متعلق ہے، اسے وہ ’’فعل‘‘(Tense) کا نام دیتا ہے۔ دوسرا زمرہ وہ ہے جو کلامیے کے ’طور‘(modalities)سے متعلق ہے، اسے وہ بیانیے کا لہجہ (mood)کہتاہے۔ تیسر ا زمرہ بیانیہ عمل سے متعلق ہے، یعنی کہانی کا بیان کنندہ کون ہے؛سامع (حقیقی یا مرادی) کون ہے؟ اسے وہ بیانیے کی آواز(Voice)قرار دیتا ہے۔ اس کے مطابق کہانی اور کلامیے کے درمیان رشتے کا تجزیہ کرتے ہوئے دو زمروں (فعل اورmood)کو پیش نظر رکھا جائے اور کلامیے اور عمل بیان کے درمیان رشتے کے تجزیے میں تیسرے زمرے یعنی لہجے کا لحاظ کیا جائے۔
ہر بیانیہ متن میں کچھ ’’کہا‘‘جاتا اور کچھ ’’دکھایا‘‘ جاتا ہے۔ چناں چہ بیانیوں میں ’’کہنے‘‘ اور ’’دکھانے‘‘ کے ساتھ ساتھ کوئی کہنے اور کوئی دکھانے والا بھی ہوتا ہے۔ کہنے والا، بیان کنندہ(Narrator)ہے اور دکھانے والا Focalizerہے۔ژنیث کی اصطلاح لہجے(mood) کا تعلقFocalization سے ہے او ر آواز( Voice)کا تعلقNarrationسے۔ بیان کنندہ اور Focalizer،بیانیے کے واقعات، واقعات کے تسلسل و عدم تسلسل، واقعات سے وابستہ زمان و مکاں اور بیانیے کے مفہوم و مقصد کا تعین مل کر کرتے ہیں۔ ہر بیانیے کا کوئی نہ کوئی کہنے یا بیان کرنے والا ہوتا ہے، اسی کوژنیث’’بیانیہ کلام‘‘ کی آوازVoiceکہتا ہے۔ یہ نہ صرف بیانیے کے قاری /سامع کے ساتھ ’’ترسیلی ربط‘‘ قائم کرتا ہے بلکہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ قاری تک کیا بات پہنچائی جائے اور کیا چھوڑی دی جائے اور کون سا طریقِ بیان(Point of View)اختیار کیا جائے۔ واحد متکلم میں کہانی کہی جائے؛ہمہ بیں ناظر کے ذریعے کہانی بیان کی جائے یا کسی اور طریق سے کہانی قاری تک پہنچائی جائے۔ کہانی بیان کرنے کے کسی مخصوص طریق کا انتخاب کہانی کی ساخت پر لازماً اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلاً واحد متکلم میں کہی جانے والی کہانی میں بیان کنندہ راوی کے ساتھ ساتھ اگر کہانی کا کردار بھی ہو تو ایک طرف وہ قاری کو اپنے تجربے میں شریک کرنے کی پیہم کوشش میں ہوگا اور حقیقت کا تاثر ابھارنے میں کام یاب ہو گا تو دوسری طرف وہ کہانی کے دوسرے کرداروں کی فقط خارجی صورتِ حال بیان کر پائے گا۔ وہ ہمہ بیں ناظر کی طرح دوسرے کرداروں کی باطنی کیفیات سے آ گاہی مہیا نہیں
کر سکے گا۔
بیان کنندہ کا تعلق بیان کے طریقے سے رہتا ہے جب کہ Focalizerایک ایسا ’’ایجنٹ‘‘ یا ’’کردار‘‘ ہے جو بیانیے کے مفہوم و مقصد اور جہت کا تعین کرتا ہے۔ ہر بیانیہ متن کسی نہ کسی علم، آئیڈیالوجی یا ثقافتی پس منظر کے حصار میں ہوتا ہے۔ وہ کسی نفسیاتی نکتے، انسانی فطرت کی کسی کم زوری، کسی سیاسی نظریے، کسی ثقافتی رسم یاکسی تہذیبی صورتِ حال پر بطور خاص ’’اِصرار‘‘ کرتا ہے۔ بس یہی بیانیے کی Focalizationہے۔
گذشتہ صفحات میں دیے گئے بیانیہ ٹکڑے کا بیان کنندہ ’میں ‘ ہے؛اس کی شناخت متعین ہے،نہ اس کے بیان کا مقصد و مدعا طے ہے : یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ کون ہے اور کس کو مخاطب کر کے یہ ساری باتیں کیوں کَہ رہا ہے؟تاہم اس کے لہجے پر غور کریں؛اس کی آواز کا زیروبم پہچانیں،اس کے اداکردہ جملوں میں اصراراور سادہ و سپاٹ بیانیہ کیفیتوں کے حال سے آگاہ ہوں تو ’میں‘کی شناخت متعین ہو جاتی ہے۔یہ شناخت ،اس بیاینے کے Focalizer سے ہمیں آشنا کردیتی ہے۔ ہم کَہ سکتے ہیں کہ یہ ’’ایک ایسا شخص ہے ، جسے غوروفکر کی عادت ہے، جو معمولی باتوں پر غور سے ،انسانی زندگی کے بنیادی سوالات اور مسایل تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔لہٰذا اس کا مدعا عام،روزمرہ اور دست یاب صورتِ حال سے خاص اور حقیقی انسانی صورتِ حال تک رسائی ہے۔‘‘ یہ تجزیہ دراصل بیانیے کے نقطہِ ارتکاز یا Focalizationتک پہنچنے کی خاطر ہے۔تاہم واضح رہے کہ یہ تجزیہ اپنی اصل میں تعبیر ہے ۔اور ہر تعبیر ،ایک دوسری ،نئی اور متبادل تعبیر کا امکان رکھتی ہے۔دوسرے لفظوں میں کسی بیانیے کے نقطہِ ارتکازکی شناخت حتمی نہیں ہوتی۔ایک ہی بیانیے کے مقصدو مدعا پر اختلاف کی گنجایش رہتی ہے۔
اب اگر فکشن کے پرانے اور نئے نظری مباحث پر نگاہ ڈالیں تو دل چسپ صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ پرانے مباحث کے سروکار زندگی، افراد، ماحول، واقعات ہیں جب کہ نئے مباحث اصولوں، ضابطوں، ساختوں سے متعلق ہیں۔ پہلے فکشن میں باہر اور سماج کو اور اس کے مسائل و موضوعات کو ڈھونڈا جاتا تھا، مگر اب ان اصولوں کو تلاش کیا جاتا ہے جو فکشن کے تمام اجزا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ پہلے فکشن کو (زندگی کا)آئنہمگر اب اسے ایک ہیئت /ساخت خیال کیا گیا ہے۔ پہلے مطالعے کی نہج عمرانی(اور نفسیاتی)تھی اور اب سائنسی ہے۔ عمرانی نہج میں فکشن کے ہیئتی پہلو پر توجہ کم اور عمرانی و سماجی مسائل پر زیادہ تھی اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ فکشن معاصر زندگی کی ترجمانی میں کس درجہ کا م یاب ہے۔نیز کیا فکشن سماجی صورتِ حال سے آگاہی کے ساتھ اسے بدلنے کا کوئی امکانی حل بھی پیش کرتا ہے یا نہیں؟فکشن کی جمالیاتی قدر کا پیمانہ بھی بڑی حد تک معاصر زندگی کی کامل نمایندگی تھا۔ یعنی فکشن کی تکنیک اور اسلوب کے انتخاب کا معاملہ عصری صورتِ حال سے ان کی مناسبت پر منحصر تھا۔ آزاد تلازمات، شعور کی رو، اساطیری و داستانی اسلوب، ان سب کا جواز معاصر زندگی کی صورتِ حال میں تلاش کیا جاتا تھا، لیکن فکشن کے مطالعے کی سائنسی نہج نے فکشن میں عمرانی و سماجی مسائل کی نمایندگی کے سوال کو پس پشت ڈال دیا ہے: اس لیے نہیں کہ ان مسائل کی کوئی اہمیت نہیں یا فکشن میں یہ پیش نہیں ہوتے،بلکہ اس لیے کہ فکشن کے تمام موضوعات بیانئے کی مخصوص ساخت یا گرامر کے تابع ہوتے ہیں۔ اگر اس ’’گرامر‘‘کو مرتب کر لیا جائے تو یہ جانا جا سکتا ہے کہ مختلف و متنوع موضوعات بیانیے میں کس طور شامل اور پیش ہوتے ہیں۔
دراصل فکشن کی نئی تنقید یعنی بیانیات (Narratology)بڑی حد تک جدید لسانیات کی طرح ہے۔ جس طرح ماہرلسانیات لفظوں کے معانی نہیں بتاتا؛یہ اس کی ذمے داری ہی نہیں ہے؛اس کے منصب کا تقاضا یہ واضح کرنا ہے کہ معانی وجود میں کیسے آتے ہیں یا لفظ و معنی کے رشتے کی نوعیت کیا ہے، اسی طرح بیانیات کسی بیانیے کے موضوع کی شرح کرنے کے بجائے اس کی زیریں ساخت کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتی ہے جو دراصل کہانی، کلامیے اور عملِ بیان سے عبارت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے، اس طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ فکشن کے لیے کون سا موضوع اہم ہے اور عصری یا آفاقی تناظر میں کس موضوع کی کیا اہمیت ہے!نیز فکشن، قاری کو داخلی سطح پر کس قدر متاثر کرتا اور اسے ایک نئی تخیلی دنیا سے متعارف کروا کر اس کے تصورِ کائنات کو بدلنے کی سعی کرتا ہے!یہ سوال بھی سائنسی مطالعاتی نہج نہیں اٹھاتی۔ اب سوال یہ ہے، کیا یہ سوالات فکشن کے لیے غیر متعلقہ ہو گئے ہیں یا بیانیات اپنی مطالعاتی نہج کے منطقی حدود کی پابند ہونے کی وجہ سے ان سوالات پر غور کرنے سے قاصر ہے، یا انھیں معرضِ اعتنا میں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی؟
اس ضمن میں ایک بات تو یہ ہے کہبیانیات کسی بھی دوسری تنقیدی تھیوری کی طرح اپنا ایک تعقلاتی فریم ورک رکھتی ہے اور اسی وجہ سے یہ اپنے مخصوص دائرہ عمل میں موثر ہے۔ ہمیں اصولی طور پر اس سے وہ تقاضے(خواہ وہ سوالات کی صورت ہوں یا توقعات کی صورت) کرنا ہی نہیں چاہئیں جو اس کے تعقلاتی فریم ورک سے باہر وجود رکھتے ہوں، خواہ وہ باہرکتنے ہی اہم ہوں۔ اس طرح کا تقاضا گویا سرکنڈے سے شکر حاصل کرنے کی خواہش کرنا ہے۔ تاہم بیانیات کے فریم ورک کے اندر کیے گئے دعووں کو چیلنج کرنے اور ان کے امکانات پر غور کرنے میں حرج نہیں ہونا چاہیے۔
بیانیات کا بنیادی دعویٰ وہی ہے جو ساختیات(اور ہیئت پسندی)کا ہے:معنی ہیئت ہے؛ معنی الگ اور آزاد وجود نہیں رکھتا؛وہ ہیئت کی وجہ سے ہے اور ہیئت کے اندر ہے اور بیانیات کی اصطلاحوں میں تھیم کلامیے کی وجہ سے ہے اور کلامیے کے اندر ہے۔ گویا کسی بیانیے میں جو موضوع، مسئلہ یا سروکار پیش ہوتا ہے وہ الگ اور آزاد وجود نہیں رکھتا، کلامیے /ہیئت کے تابع ہوتا وار اس کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ موضوع کا اہم یا غیر اہم ہونا، مسئلے کا عصری یا آفاقی ہونا اور سروکار کا مقامی یا عالمی ہونا آئیڈیالوجیکل معاملہ ہے اور بادی النظر میں بیانیات کے بنیادی دعوے سے باہر کی چیز ہے اور اپنی جگہ اہم ہے۔ بیانیات ،اپنی سادہ صورت میں،چھوٹے اور بڑے کم تر اور برتر کے اخلاقی اور اقداری فیصلے نہیں دیتی، تاہم وہ یہ ضرور بتاتی ہے کہ بڑے یا چھوٹے کا وجود کیوں کر ممکن ہوتا ہے! اور ظاہر ہے کسی چیز کی ماہیت کو جان لینا اس کی اہمیت کو جانچنے سے زیادہ ’’اہم‘‘ اور بنیادی ہے۔ تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ماہیت، شے کی اہمیت کا کوئی تصور یا تاثر بھی دیتی ہے؟راقم کے نزدیک جب ہم کسی شے کی ماہیت دریافت کرتے ہیں تو س کی اہمیت کا کوئی نہ کوئی تصور یا شائبہبھی تشکیل پا جاتا ہے۔مثلاًجب کسی بیانیے کے کلامیے اور عملِ بیان کا تجزیہ کیا جاتاہے ،یعنی اس کی ساخت؍ماہیت تک پہنچا جاتا ہے تو یہ عمل بہ یک وقت تجزیاتی اور تعبیری ہوتا ہے۔جب ایک تعبیر پر دوسری طرح کی تعبیر کو ترجیح دی جاتی تو گویا ایک آئیڈیالوجیکل موقف اختیار کیا جاتا ہے۔اور آئیڈیالوجی کا تعلق اقدار سے ،متن کی اہمیت سے ہے۔یہی دیکھیے کہ گزشتہ صفحات میں جس بیانیہ ٹکڑے کا تجزیہ اور تعبیر کی گئی ہے ،اور اس کی ساخت تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے ،ہر چند اس کی اہمیت پر روشنی نہیں ڈالی گئی،مگر جس تعبیر کواختیار کیا گیا ہے ،وہ اس متن کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی ہی صورت ہے:وہ متن زیادہ اہم اور بڑا ہے جو معمولی صورتِ حال سے ’غیر معمولی انسانی سوالات‘ تک پہنچتا ہے۔اس بحث سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تنقید اور دیگر سماجی علوم خواہ کتنے ہی سائنسی ہو جائیں ،وہ پوری طرح اقدار سے الگ ہوسکتے ہیں ، نہ دست بردار!!

حواشی
1. Bal, Mieke: Narratology (Tran. Christine van Bahecmcn); Toronto: University of Toronto Press, 1985.
2. Barthes, Roland: An Introduction to the Structural Analysis of Narrative; in New Literary History, 1996.
3. Brooks, Cleanth, Warren, Rebert Penn: Understanding Fiction; New York: Appletion, 1959.
4. Chatman, Seymour: Story and Dicourse: Narrative Structure in Fiction and Film; Landon: Cornell Up, 1978.
5. Cullar, Janathn: Strucuralist Poetis; Landon: Rautledge, 1975
6. Cullar, Janathan: The Pursuit of Signs: Semoitics, Literature, Deconstruction; Ithaca, Correll Up, 1978.
7. Foster, E. M: Aspects of the Novel; Harmords Worth: Penguin, 1927.
8. Fowler, Roger: Linguistics and the Novel; Landon: Methon, 1977.
9. Genette, Gerard: Narrative Discourse (Tran. Jane E lewin) Oxford: Blackwell. 1972.
10. Herman, David: Narratologies: New Perspectives on Narrative Analysis; Columbus: Ohio State Up 1999.
11. Onega Susan, Gracia Land(eds): Narratology: An
Introduction, Landon: Longman, 1996.
12. Prince, Gerald: Narratology: The Form and Functioning of Narrative, Berlin: Monton, 1982.
13. Propp, Vladimir: Morphology of Folktale (tran. Laurence Scott); Austin: University of Taxes press, 1968.
14. Ricoeur, Paul: Narrative Fiction: Contemporary Poetics; Landon, Methens, 1981.
15. Todorov, Tzvetan: Grammaire du Decameron, Monton: The Hague, 1969.
16. Todorov, Tzvetan: Introduciton to Poetics;Brighton: Harrester, 1986.





Back to Conversion Tool


Back to Home Page

No comments:

Post a Comment