Wednesday, August 3, 2011

Globalization and Urdu

گلوبلایزیشن اور اردو زبان
گلوبلائزیشن معاصر عالمی صورتِ حال کا جزو اعظم ہے، مگر اس کا اس عالم گیر تصور انسانیت سے کوئی بنیادی تعلق نہیں جسے فلسفیوں اور شاعروں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں پیش کیا ہے۔ہر چند گلوبلایزیشن بھی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے ،یعنی یہ اچانک رونما نہیں ہوئی بلکہ رفتہ رفتہ اور متعدد عوامل کی باہمی عمل آرائی سے وجود پذیر ہوئی ہے، مگر اس کا جواز (legitmacy) تاریخ کی ناگزیریت میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔دوسرے لفظو ں میں گلوبلایزیشن پیدا کی گئی ہے۔ اس کی پیدایش میں معاون اور کار گر عوامل پر کنٹرول حاصل کر کے اس سے مختلف صورتِ حال کو پیدا کیا جا سکتا تھا، مگر یہ صورتِ حال ان قوتوں کے مفادات سے متصادم ہوتی جنھوں نے گلوبلایزیشن کو جنم دیا ہے۔ اینٹی گلوبلایزیشن کی تحریک کی بنیاد ہی اس شعور پر ہے کہ گلوبلایزیشن نہ فطری صورتِ حال ہے اور نہ ناگزیر تاریخی صورتِ حال۔یہ جن عوامل پر کنٹرول اور تصرف کا نتیجہ ہے،اگر ان پر تصرف کا حق دوسروں کو بھی دے دیا جاے تو ’’ایک دوسری دنیا ممکن ہے۔‘‘ گلوبلایزیشن کی پیدایش میں معاون اورکا رگر عوامل میں ایک عامل، لسانی بھی ہے۔انسانی معاملات پر کنٹرول حاصل کرنے میں زبان کا جو غیر معمولی کردار ہے، اسے گزشتہ صدی میں بہ طورِ خاص بروے کار لایا گیا ہے۔ اس امر کی مثال خود گلوبلایزیشن کی اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح اپنے مصرف و عمل میں آئیڈیالوجی کی طرح ہے،یعنی جن باتوں کو یہ اپنے بنیادی مفہوم کے طور پر پیش کرتی اور جن کے مبنی بر حقیقت ہونے پر اصرار کرتی ہے، انھی کے پردے میں یہ اپنے اصل مقاصد کو چھپاتی ہے۔ گلوبلایزیشن اشیا، تصورات اور اقدار کے گلوبل یعنی ’’عالمی اور مشترک‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، قوموں اور سرحدوں کے تصور کے خاتمے پر اصرار کرتی ہے، مگر عالمی سے مراد ایک یا چند ایک ایسے ممالک (کی اشیا و تصورات) لیتی ہے اور قوموں اور سرحدوں کے خاتمے پر زور اس لیے دیتی ہے کہ ان چند ممالک کی اجارہ داری کی راہ میں یہ دونوں حائل نہ ہوں۔ اس طرح گلوبلایزیشن اپنے لسانی اور کلامیاتی اظہار میں لا مرکزیت کی علم بردار ہے، مگر عملاً مرکزیت کے ایک تصور کو آفاقی تسلیم کرانے کی کوشش کرتی ہے۔اسی بنا پر نوام چومسکی گلوبلایزیشن کی مخالف تحریک کو اینٹی گلوبلایزیشن کہنے کے حق میں نہیں کہ اس طرح ان تصورات کے خاتمے کا اندیشہ ہے، جنھیں گلوبل سطح پر رائج ہونا چاہیے۔ خود کو اس نام سے موسوم کر کے گلوبلایزیشن در اصل ان تصورات اور اقدار کو فروخت کرتی ہے، جو گلوبلایزیشن سے کنونشنل طور پر اور عالم گیر تصور انسانیت سے اس کی لسانی نسبت کی وجہ سے عوامی شعور میں موجود ہیں۔
ضروری ہے کہ گلوبلایزیشن کو عالم گیر انسانی تصور سے الگ کیا جاے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے متوازی ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور اس کا فائدہ گلوبلایزیشن نے خوب اٹھایا ہے۔ گلوبلایزیشن کا وصفِ خاص سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبہ ہے، جب کہ عالم گیر انسانی تصور اس کے مقابلے میں ہر طرح اور ہر سطح کے غلبے کے خلاف ہے۔ یہ تصورتمام نسلی، جغرافیائی، مذہبی، لسانی، ثقافتی، معاشی امتیازات سے بالاتر ہونے اور کرہ ارض اور اس کے جملہ وسائل کو تمام انسانوں کی یکساں ملکیت قرار دینے سے عبارت ہے۔ اشراقی فلاسفہ سے لے کر اقبال تک ہمیں یہ تصور ملتا ہے۔ اشراقی فلاسفہ خود کو عالمی شہری یعنی Cosmopolis کہتے تھے۔ ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدا ے ما است۔ یا بہ قول اقبال:
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلی، نہ صفاہاں نہ سمر قند
علاوہ ازیں متعدد فلاسفہ اور تخلیق کار جیسے سقراط، زینو، رومی، ڈی ایچ لارنس، سارترے، برٹرنیڈرسل وغیرہم خود کو عالمی شہری کہتے تھے اور کرہ ارض کو اپنا اور دوسروں کا یکساں طور پر گھر تسلیم کرتے تھے۔ دوسری طرف گلوبلایزیشن کا آغاز بھی قبل مسیح میں ہو گیا تھا۔ جب مشرقی ایشیامیں چین کی چاؤ چن اور ہان سلطنتیں وجود میں آئی تھیں، یا پھر ہندوستان کی موریہ اور گپتا حکومتیں قایم ہوئی تھیںیا میسوپوٹیمیا کی بابلی اور سمیری سلطنتیں ابھری تھیں اور سکندر اعظم نے جب پوری دنیا کو یونانیوں کے تابع کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ گلوبلایزیشن کی یہ ابتدائی شکل تھی اور اس میں سیاسی اور عسکری غلبے کی شدید خواہش تھی۔ اس غلبے کے بعد ثقافتی غلبے کی راہ خود بہ خود ہم وار ہو جاتی ہے۔ گلوبلایزیشن کا دوسرا عہد روشن خیالی کے زمانے سے شروع ہوا، جب یورپی اقوام نے اپنی سائنسی تحقیقات اور مخصوص فلسفیانہ تصو رات کی بہ دولت نو آبادیاتی نظام تشکیل دیا۔اس نظام کو صنعتی انقلاب نے مستحکم کیا اور یورپی اقوام نے ایشیا اورا فریقہ کے کئی ممالک پر قبضہ کر لیا۔ گلوبلایزیشن کی نو آبادیاتی شکل میں بھی عسکری، سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبے کو فوقیت حاصل تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد گلوبلایزیشن کا تیسرا عہد شروع ہوا۔ مقاصد کے اعتبار سے یہ عہد پہلے دو ادوار سے منسلک مگر طریق کار کے لحاظ سے نیا تھا۔ نوآبادیات کا تو خاتمہ ہوا، مگر گلوبلایزیشن کے مقاصد کا حصول جاری رہا۔ اب راست اقدام کے بہ جائے بالواسطہ اقدام کو زیادہ اہمیت ملی اور بالواسطہ اقدام کو بھی چھپانے کی غرض سے ڈسکورس یا کلامیے تشکیل دیے گئے اور انھیں رائج کیا گیا۔ GATT نامی معاہدے سے گلوبلایزیشن میں شدت پیدا ہوئی اور ڈبلیو ٹی او سے اس شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔یہ تجارتی معاہدے بہ ظاہر یکساں معاشی قوانین کی حمایت کرتے ہیں مگر ان کا فائدہ ترقی یافتہ مغربی اقوام (بالخصوص امریکا) کو ہے، اسی بنا پر بعض لوگ گلوبلایزیشن کو امریکنائزیشن بھی کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ عسکری، سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبے کو گلوبلایزیشن کا نام گزشتہ چند برسوں میں دیا گیا۔ گویا کبھی یہ بے نام رہی اور کبھی دوسرے ناموں کے پردے میں خود کو چھپاتی رہی ہے۔ پہلے یہ نو آبادیات کے پردے میں تھی اور جنگِ عظیم دوم کے بعد اس نے خود کو بین الاقوامیت (انٹرنیشنل ازم) کے طور پر پیش کیا۔ آج بھی کچھ لوگ گلوبلایزیشن اور انٹرنیشنل ازم کو ایک ہی چیز قرار دیتے ہیں۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران میں بنی نوع انسان نے جس عظیم تباہی کا سامنا کیا، اس سے مستقبل میں بچنے کی غرض سے بین الاقوامیت کی تھیوری پیش کی گئی۔ بہ ظاہر اسے عالمی اخوت کے سیاسی تصور کے طور پر پیش کیا گیا، مگر اس کے عقب میں مغربی اقوام اور (امریکا بہ طور خاص) کے غلبے کی خواہش برابر موجود تھی۔ بین الاقوامیت کی حمایت آئن سٹائن نے بھی کی تھی۔ اس نے Why War? (جو فرائڈ کے ساتھ اس کی خط کتابت پر مشتمل ہے) میں عالمی حکومت کی تجویز پیش کی اور کہا کہ عالمی حکومت کی باگ ڈور امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کے پاس ہونی چاہیے۔ عالمی حکومت کے اختیارات کے ضمن میں اس عظیم سائنس دان نے جو کچھ کہا، وہ نہ صرف بین الاقوامیت کی آڑ میں گلوبلایزیشن کے مقاصد کا اعلامیہ ہے، بلکہ جسے آج بھی امریکاکی خارجہ پالیسی میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
"The World Government would have power over all military matters and need have only one further power: the power to intervene in countries where a miniority is oppressing a majority and creating the kind of instability that leads to war... There must be an end to the concept of non-intervention, for to end it is part of keeping the peace."
(Bruno Leone, Internationalism, P140)
بین الاقوامیت اور گلوبلایزیشن میں ایک یا چند ممالک کی مرکزیت اور اس مرکزیت کو باقی دنیا سے تسلیم کرانے کی مساعی، مشترک ہیں، مگر دونوں میں یہ ایک اہم فرق بھی ہے کہ بین الاقوامیت قومی حکومتوں اور قومی سرحدوں کو قایم رکھنے کے حق میں تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ عالمی حکومت کے تصور میں قومی حکومت کے کردار کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی اور گلوبلایزیشن قومی حکومت اور سرحدوں کے خود مختار انہ کردار کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، گویا بین الاقوامیت میں جو بات محض تصور کی حد تک تھی، اسے گلوبلایزیشن نے عملاً ثابت کر دکھایا ہے۔
گلوبلایزیشن کی صورتِ حال سادہ اور یک جہت نہیں ہے۔ ارجن اپا دراے نے اس کی پانچ شکلوں کی نشان دہی کی ہے۔
.i نسلی (Ethnoscapes) :لوگوں کی غیر معمولی نقل و حرکت، سیاحوں اور تارکین وطن کی کثرت۔
.ii معاشی (Finance scapes):زر کی نقل و حرکت، سٹاک ایکسچینج، آزاد تجارت، آئی ایم ایف وغیرہ۔
.iii نظریاتی (Ideo scapes):مختلف و متعدد نظریات، اور سیاسی آئیڈیالوجیز کی نقل و حرکت
.iv ابلاغی(Media scapes):اخبار، ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ کے ذریعے خبروں اور تصویروں کی نقل و حرکت
.v ٹیکنالوجی (Techno scapes):نت نئی ٹیکنالوجی کی نقل و حرکت
ارجن اپادراے نے گلوبلایزیشن کی لسانی، ثقافتی اور جمالیاتی شکلوں کی نشان دہی نہیں کی،حالاں کہ ان کی بھی نقل و حرکت ہو رہی ہے۔ گویا گلوبلایزیشن ایک ایسا مظہر ہے، جس میں ’’آزادانہ، متنوع اور بہ کثرت نقل و حرکت‘‘ بنیادی چیز ہے۔ اس نقل و حرکت کو ممکن بنانے کے لیے نئے تجارتی معاہدے (جیسے ڈبلیو ٹی او) ؛تجارتی ادارے (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک) اور تجارتی بلاک (یورپی یونین، نیفٹا) قایم کیے گئے ہیں اور ان سب کے پیچھے ملٹی نیشنل کمپنیاں موجود ہیں۔ دنیا کی سیاست اور تجارت در اصل انھی کے ہاتھ میں ہے۔
گلوبلایزیشن کی آزادانہ اور متنوع نقل و حرکت کے اثرات تین طرح کے ہیں: سیاسی، معاشی اور ثقافتی۔ دوسرے لفظوں میں گلوبلایزیشن کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیاں سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبہ حاصل کرتی ہیں اور اس کے لیے قانون شکنی سے لے کر قانون سازی، ہر طرح کے اقدامات کو جائز سمجھتی ہیں۔ تا ہم ان کمپنیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ’’صارفیت کے کلچر‘‘ کو سب سے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اور یہ کہنا غلط نہیں کہ گلوبلایزیشن کے اظہار کی جتنی بھی صورتیں ہوں، ان کے عقب میں صارفیت بہ طور ساخت موجود اور کار فرما ہے، اس طرح گلوبلایزیشن کی ہر نوع کی نقل و حرکت، صارفیت کے تابع ہے۔
گلوبلایزیشن اپنے صارفی مقاصد کے لیے ہر شے کی داخلی معنویت کو اولاً دریافت کرتی اور پھر اسے بروے کار لاتی ہے۔گلوبلایزیشن کا اشیا کی طرف روّیہ بے غرضانہ تحقیقی نہیں، جس کا مقصد محض انسانی علم میں اضافہ اوربے غرض مسرت کا حصول ہوتا ہے اور جس کا مظاہرہ کلاسیکی ادوار میں بالخصوص ہوتا رہا ہے۔ اب ہر شے کموڈیٹی ہے۔گویا پہلے اشیا کے ساتھ کم یا زیادہ تقدس وابستہ تھا، مگر اب اشیا محض اشیائے صرف ہیں۔ انھیں بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔ اشیا کی داخلی معنویت بہ جاے خود کوئی قدر نہیں رکھتی، قدر کا تعیّن صارفیت اور مارکیٹ کرتی ہے اور اشیا میں وہ سب کچھ شامل ہے جن سے انسان کی سماجی زندگی ممکن اور منضبط ہوتی ہے، جیسے زبان، آرٹ، اخلاق، میڈیا، ثقافتی اقدار، معاشی روابط، مذہب وغیر ہم۔ گلوبلایزیشن ان سب کو کموڈیٹی کا درجہ دیتی ہے۔ اور ان کی خرید و فروخت کے لیے نئی نئی منڈیاں تلاش کرنے میں سر گرم رہتی ہے۔
بہ ظاہر یہ بات عجیب نظر آتی ہے کہ زبان، آرٹ، ثقافت اور مذہب براے فروخت نہیں۔ عجیب نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں ’’کلاسیکی‘‘ تصورات رکھتے ہیں۔ اور اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ گلوبلایزیشن انھی ’’کلاسیکی تصورات ‘‘کے وسیلے سے ان کی صَرفیت کو ممکن بناتی ہے۔ گلوبلایزیشن میڈیا اور اشتہارات کے ذریعے ان تصورات کو اُبھارتی اور لوگوں میں ان اشیا کے لیے ترغیب اور آمادگی بے دار کرتی ہے۔ اسی طرح اشیا سے متعلق کلاسیکی تصورات کا احیا نہیں ہوتا، بلکہ ان تصورات کا خاموش ،ہنر مندانہ استحصال کیا جاتا ہے۔ لوگوں /صارفین کو استحصال کی خبر تک نہیں ہوتی۔ اس ضمن میں شیرف حطاط (Sherif Hatata) کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’عالمی مارکیٹ کو بڑھانے کے لیے صارفین کی تعداد بڑھانا ضروری ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ صارفین ہر وہ چیز خریدیں، جسے براے فروخت پیش کیا جاے۔ اس کے لیے اشیاے صَرف کے مطابق ضرورتیں ’’پیدا‘‘ کی جائیں۔ اس ضمن میں ثقافت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ثقافت، عالمی صارف کو لازماً وضع و تخلیق کرے۔‘‘چناں چہ ثقافت، زبان، آرٹ وغیرہ گلوبلایزیشن کے صارفی مقاصد کے حصول میں بہ طور آلہِ کار استعمال کیے جاتے ہیں۔ گلوبلایزیشن کا یہ رویہ دنیا کی تمام ثقافتو ں، تمام زبانوں، آرٹ کی تمام صورتوں کی طرف یکساں ہے،مگر چوں کہ ترقی یافتہ، کم ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی ثقافتیں اورزبانیں ایک جیسی صارفی قیمت اور ایک جیسی صارفی اثر اندازی نہیں رکھتیں، ترقی یافتہ ممالک کی ثقافت و زبان کو دیگر پر صَرفی فوقیت حاصل ہے، اس لیے ان کے غلبے کی راہ خود بہ خود ہم وار ہو جاتی ہے۔
ثقافتکوعالمی صارف پیدا کرنے میں کیوں کر استعمال کیا جاسکتا ہے ،اس کی ایک عام مثال ویلنٹائن ڈے ہے۔یہ دن اب ہر سال ۱۴ فروری کو دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے بڑے شہروں میں منایا جاتا ہے۔اس روز لوگ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔محبت کے اظہار کے لیے نہ کوئی دن مقرر کیا جاسکتا ہے اور نہ کوئی خاص طریقہ،مگر گلوبلایزیشن نے دن بھی مقرر کردیا ہے اور طریقے بھی!یہ سارے طریقے دراصل صارفی کلچر کو تقویت پہنچاتے ہیں۔اس روز لوگوں میں محبت کا اضافہ تو نہیں ہوتا ،مگر طرح طرح کی اشیا کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ضرور ہوتا ہے ،یعنی بھلا محبت کانہیں ،صارفیت کا ہوتا ہے۔اس ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ صارفیت کسی ثقافتی مظہر کی بنیادی علامتی معنویت کو دریافت کرتی اورمیڈیا کے ذریعے اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت کرتی ہے تا کہ اسے ایک گلوبل اور آفاقی علامت کے طور پر تسلیم کرایا جاسکے۔گلوبلایزیشن کے ماسٹر مائنڈ جانتے ہیں کہ ہر ثقافتی مظہر کسی قوم کے مجموعی تصورِ کاینات سے جڑا ہوتا ہے۔جب اس کی علامتی معنویت کو گلوبل اور آفاقی بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو گویا اسے اس کے تصورِ کاینات سے کاٹ ڈالا جاتا ہے۔ گلوبلایزیشن میں ثقافتی مظاہر اپنے origin سے کٹ جاتے ہیں۔لوگ جب ان مظاہر کی نام نہاد آفاقی علامت کو قبول کرتے اور ان مظاہر کی رسومیات میں شریک ہوتے ہیں تو وہ ان کی ’’اصل‘‘ سے بے خبر اور لا تعلق ہوتے ہیں۔یہی دیکھیے کہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے سینٹ ویلنٹائن کون تھے،کس بنا پر انھیں کلاڈیس دوم نے جیل میں ڈالا اور پھر سزاے موت دی تھی۔اس دن کی عیسائی تصورِ کاینات سے گہری نسبت ہے، مگر پوری دنیا میں اس دن کو منانے والے اس نسبت سے بے خبر یا لا تعلق ہوتے ہیں۔بے خبری یا لاتعلقی کی وجہ سے ثقافتی مظہر کو منانے میں اس ارتفاعی تجربے سے گزرنا ممکن ہی نہیں،جس سے اس ثقافتی مظہر کے تصورِ کاینات میں شریک لوگ گزرتے ہیں۔یہی صورت دیگر ثقافتی تہواروں کے ساتھ ہے۔خواہ وہ بسنت ہو،عید ہو،دیوالی ہو یا مشاعرہ ۔صارفیت تمام تہواروں کو ایک حقیقی ثقافتی تجربے کے بجاے انھیں تفریحی اور تجارتی سرگرمی میں بدل دیتی ہے۔

گلوبلایزیشن نے دنیا کی تمام زبانوں کو متاثر کیا ہے۔ ایک سطح پر یہ اثر یکساں ہے کہ تمام زبانوں کو کموڈیٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس وقت دنیا کی چھوٹی بڑی زبانوں میں جو مختلف ٹی وی چینلزکھلے ہیں، ان کا مقصد ان زبانوں کی بقا یا فروغ نہیں، بلکہ انھیں ان زبانوں کے بولنے والوں کی مارکیٹ میں بیچناہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بالواسطہ طور پر ان زبانوں کوفروغ بھی مل رہا ہے۔ اسی طرح سوا حلی زبانوں اور مشرقِ وسطیٰ میں عربی کو بھی صارفی مقاصد کے تحت اہمیت دی جا رہی ہے۔ خود انگریزی زبان، جسے گلوبلایزیشن کی آفیشنل زبان اور موجودہ زمانے کی لینگوافرنیکا کہنا چاہیے، ایک کموڈیٹی ہے۔ انگریزی کو اس کی کلچرل اور اد بی حیثیت کی وجہ سے نہیں،اس کے لینگوافر نیکا ہونے کی وجہ سے اہمیت مل رہی ہے۔ چناں چہ انگریزی کے کلچرل یا ادبی پہلو کے بہ جاے، اس کے فنکشنل پہلو کو اہمیت دی جا رہی ہے اور فنکشنل انگریزی کا کوئی مخصوص مرکز نہیں ہے۔ ہر چند اس وقت امریکی انگریزی کا بول بالا ہے، کہ برطانوی انگریزی کے مقابلے میں امریکی انگریزی زیادہ فنکشنل ہے، مگر ہر جگہ اس کی صد فی صد نقل نہیں کی جا رہی ،نیز دنیا کے مختلف ممالک میں انگریزی کی مختلف قسمیں رائج ہیں۔جنوبی ایشیا میں بولی اور لکھی جانے والی انگریزی وہ نہیں ہے، جو برطانیہ یا امریکا میں رائج ہے۔ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا، پاکستانی انگریزی، ہندوستانی انگریزی سے مختلف ہے اور اس با ت سے اہل زبان انگریز پریشان ہیں کہ انگریزی زبان مسخ ہوتی جا رہی ہے۔Tove Skutnabb Kagesنے انگریزی کو گلوبلایزیشن کی آفیشل زبان ہونے کی وجہ سے قاتل زبان (Killer Language) کہا ہے، مگر اپنی مرکزیت سے محروم ہونے کی بنا پر یہ خود جگہ جگہ قتل ہو رہی ہے۔
دوسری سطح پر گلوبلایزیشن نے مختلف زبانوں کو مختلف طرح سے متاثر کیا ہے۔ گلوبلایزیشن صارفیت کے عمل کو بے روک ٹوک جاری رکھنے کی غرض سے ثقافتی یکسانیت چاہتی ہے اور اس کے لیے انگریزی زبان کو بہ طور خاص بروے کار لاتی ہے۔ یعنی انگریزی کے ذریعے ’’ثقافتی یکسانیت‘‘ قایم کی جا رہی ہے۔ ثقافتی یکسانیت کا مطلب دیگر اور متفرق ثقافتوں کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ اسی طرح انگریزی کے ذریعے دیگر اور متفرق زبانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ یونیسکو کے’’ اٹلس آف دی ورلڈ لینگویجزان ڈینجر آف ڈس اپیرنگ‘‘ کے مطاق دنیا کی چھ ہزار زبانوں میں سے پانچ ہزار زبانوں کو ختم ہونے کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ اور یہ سب گلوبلایزیشن کا کیا دھرا ہے۔ دنیا میں اس سے پہلے بھی زبانیں ختم ہوتی رہیں اور ان کی جگہ نئی زبانیں لیتی رہی ہیں،جیسے قدیم سومیری، بابلی، ہڑپہ، موہنجودڑو کی تہذیبوں کی زبانیں، سنسکرت، عبرانی، مگر ان کے خاتمے کے عوامل تاریخی تھے، جب کہ موجودہ زمانے میں زبانوں کے خاتمے کے اسباب سیاسی اور تجارتی ہیں۔ انگریزی کو گلوبل بنانے کی غرض سے دنیا کی ہزاروں زبانوں کو تہ تیغ کیا جا رہا ہے۔ کسی زبان کا خاتمہ ایک عظیم ثقافتی، تاریخی اور انسانی المیہ ہے۔زبان کے ختم ہونے سے ایک پوری ثقافت ختم ہو جاتی ہے۔ زبان ثقافت کو محفوظ ہی نہیں کرتی، ثقافت کو تشکیل بھی دیتی ہے اور یہ ثقافت انفرادی ہوتی ہے؛دنیا کے ایک مخصوص وژن اور منفرد ورلڈ ویو کی علم بردار ہوتی ہے۔ چناں چہ جب ایک زبان ختم ہوتی ہے تو دنیا کو دیکھنے کا مخصوص وژن بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔اور یہ عظیم ثقافتی،بشریاتی المیہ ہے۔ اسی طرح ہر زبان تاریخ کے ایک مخصوص محور پر جنم لیتی ہے اور ہر زبان کی مخصوص نحوی ساخت اور معنیاتی نظام ہوتا ہے،نیز ہر زبان نے معاصر تاریخ کی کئی کروٹو ں کو محفوظ رکھا ہوتا ہے ،لہذا زبان کا خاتمہ، انسانی تاریخ کے ایک باب کا نابود ہو نا ہے۔
زبان انسانی گروہوں کو شناخت دیتی ہے۔زبان کے خاتمے سے ایک انسانی گروہ اپنی شناخت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس نے دنیا اور کائنات سے جو رشتہ قرنوں کی گرد آلود مسافت کے بعد قایم کیا ہوتاہے، زبان کے خاتمے سے اس رشتے کی ڈوراس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اوروہ گر وہ در بدر ہو جاتا ہے۔ اس المیے کا احساس گلوبلایزیشن کو نہیں ہے، تا ہم دنیا میں بعض ایسی تنظیمیں موجود ہیں، جو ختم ہوتی زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔
گلوبلایزیشن ثقافتی و لسانی یکسانیت کی زبردست مداح اور ما بعد جدیدیت کے بر عکس ثقافتی و لسانی تنوع (Diversity) کی مخالف ہے،حالاں کہ تنوع نہ صرف حیاتیاتی سطح پر توازن اور ارتقا کے لیے ضروری ہے بلکہ سماجی، تخلیقی اور فطری زندگی کے ارتقا کے لیے بھی لازم ہے۔کیپرا (Fritjof Capra) نے بعض انواع کے خاتمے کو پوری حیاتیاتی اقلیم کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق حیاتیاتی ا قلم ایک جال کی طرح ہے۔ایک جوڑ اس جال سے ٹوٹتا ہے تو باقی جوڑ ڈھیلے پڑنا اور ٹوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کچھ یہی صورت انسانی ثقافت کی ہے۔ کسی ایک ثقافت یا زبان کا خاتمہ ’’عظیم ثقافتی جال‘‘ کے ٹوٹنے پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ اوکتاویوپاز نے کہا تھا ’’کوئی تصور کائنات جب ختم ہوتا یا کوئی کلچر فنا ہوتا ہے تو زندگی کا ایک امکان ختم اور فنا ہو جاتا ہے۔‘‘میکسیکن شاعر کی یہ بات محض شاعرانہ نہیں ہے۔یہ سائنسی صداقت ہے کہ ہر زبان (جو کسی کلچر کی علم بردار ہوتی ہے) انسانی شعور کی مختلف اور منفرد صورت کو پیش کرتی ہے۔ زبان (اور کلچر) کے خاتمے سے اس انسانی شعور کا خاتمہ ہوتا ہے۔ گلوبلایزیشن کو نہ تو عظیم ثقافتی جال سے کوئی دل چسپی ہے ،نہ زندگی کے متنوع ا مکانات سے۔
گلوبلایزیشن اولاً جسے ثقافتی یکسانیت کہتی ہے، وہ آگے چل کر ثقافتی و لسانی اجارہ داری میں بدل جاتی ہے۔ ایک زبان اور ثقافت، دوسری زبانوں کو بے دخل اورمسخ کرنا شروع کر دیتی ہے، تا کہ اپنے غلبے کو ممکن بنا سکے۔ ایسا اسی وقت ہو تاہے،جب گلوبل زبان (یہاں مراد انگریزی) مخصوص طاقت رکھتی ہو۔ گلوبلایزیشن روایتی طاقت (جیسے طبعی، عسکری، زرودولت) اور طاقت کے روایتی مفاہیم (جیسے سیاسی، معاشی، قومی) سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی اور نہ انھیں اپنے مقاصد سے ہم آہنگ پاتی ہے۔ گلوبلایزیشن کے لیے طاقت کا مفہوم ’’علم‘‘ ہے اور علم سے مراد محض صداقت اور حق نہیں، بلکہ وہ سب کچھ ہے،جو کسی بھی چیز کے بارے میں کسی بھی نوع کی آگاہی، خبر، اطلاع یا معلومات فراہم کرتا ہے۔اس آگاہی کا کوئی اقداری درجہ نہیں ہے۔ کسی چیز کے بارے میں سچ بھی اتنا ہی اہم ہے، جتنا جھوٹ۔ایلون ٹافلر (Alvin Toffler) نے اپنی معروف کتاب ’’پاور شفٹ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’باطل حقائق، دروغ، سچے حقائق، سائنسی قوانین، مسلمہ مذہبی صداقتیں، سب ’علم‘کی قسمیں ہیں‘‘، اس لیے ان سب میں ’’طاقت‘‘ ہے۔یہ کسی صورتِ حال کو پیدا کرنے یا پہلے سے موجود صورتِ حال کو بدلنے کی یکساں صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات اہم نہیں کہ کسی چیز کی اپنی داخلی قدر یا سچائی کیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ اس قدر کو اپنے مقاصد کے مطابق کیسے ڈھالا جا سکتا اور بروے کار لایاجا سکتا ہے۔ چوں کہ موجودہ علم کی بیش تر صورتوں کو انگریزی زبان پیش کر رہی ہے، اس لیے یہ زبان غیر معمولی ’’طاقت‘‘ رکھتی ہے۔ اس طاقت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ مثلاً اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانیں (انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، عربی،جرمن، روسی) ہیں، مگر ۹۷222 انگریزی استعمال ہوتی ہے۔اسی طرح ویب کی زبان بھی زیادہ تر انگریزی ہے۔ ویب جس نے دنیا کو ’’عالمی گاؤں‘‘ بنایا ہے۔
گلوبلایزیشن کے اردو پر بیش تراثرات تو وہی ہیں، جو دنیا کی دوسری زبانوں پر ہیں اور انگریزی کا اردو کے ضمن میں وہی قاتل زبان کا کردار ہے، تا ہم بہ حیثیت مجموعی گلوبلایزیشن نے اردو زبان کو درج ذیل حوالوں سے متاثر کیا ہے۔
اردو زبان کا شمار ان زبانوں میں بہ ہر حال نہیں ہوتا، جو گلوبلایزیشن کے زہریلے اثرات کی وجہ سے مر رہی ہیں یا مرنے کے قریب ہیں۔ کوئی زبان اس وقت تک نہیں مرتی،جب تک اس کو بولنے والے موجود ہوں۔اردو میں اگر بولی جانے والی ہندی بھی شامل کر لی جاے تویہ چینی اور انگریزی کے بعد تیسری بڑی زبان ہے۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ کم بولے جانے کے باوجود انگریزی ،چینی کے مقابلے میں طاقت ور ہے۔اس کا صاف مطلب ہے کہ کسی زبان کی طاقت کا تعیّن اس کے بولنے والوں کی تعداد سے نہیں ہوتا۔ خود ہمارے ملک میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد ملک کی کل آبادی کا ۴۴222 ہے، جو سب سے زیادہ ہے، جب کہ انگریزی بولنے والوں کی تعداد سب سے کم ہے، مگر اسے تمام پاکستانی زبانوں اور اردو کے مقابلے میں مقتدر حیثیت حاصل ہے۔ بول چال کی وجہ سے زبان زندہ ضرور رہتی ہے، مگر زبان کو اقتداری حیثیت اس وقت حاصل ہوتی ہے، جب وہ ’’طاقت‘‘ رکھتی ہو۔ ڈاکٹر طارق رحمان طاقت سے مراد ایسی صلاحیت لیتے ہیں، جو زبان بولنے والوں کو زیادہ سے زیادہ "means of gratification"حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ تسکین کے ذرائع طبعی (جیسے گھر، کار، اچھی خوراک، روپیہ پیسہ) اور غیر طبعیّ (جیسے اناکی برتری، عزتِ نفس ،تکریم، بلند سماجی مرتبہ) دونوں ہو سکتے ہیں۔ جو زبان تسکین کے جتنے زیادہ ذرائع مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو گی، اتنی ہی طاقت ور ہو گی۔ ڈاکٹر طارق رحمان نے طاقت کا یہ تصور پاکستانی تناظر میں پیش کیا ہے۔ باقی دنیا میں انگریزی تسکین کے طبعی ذرائع مہیا کرتی ہے، یعنی بڑے مالیاتی، ابلاغی اور تحقیقی اداروں میں اعلا ملازمتیں دلاتی ہے، مگر پاکستان (اور بعض دوسرے سابق نو آبادیاتی ممالک ہیں) میں اس کے علاوہ انگریزی انا کی برتری، تکریم اور بلند سماجی مرتبے سے بھی وابستہ ہو گئی ہے اور یہ وابستگی گلوبلایزیشن کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے نو آبادیاتی پس منظر کی وجہ سے مدت سے موجود ہے، تا ہم گلوبلایزیشن نے اس وابستگی کو مزید پختہ کیا ہے۔اس امر کی معمولی مثال یہ ہے کہ اردو بولتے ہوے جب اپنی برتری کا اظہار مقصود ہو،حکم دینا ہو،کسی ماتحت کو ڈانٹنا ہو،کسی پر اپنی ناراضگی ،غصے کا اظہار کرنا ہو تو مختصر انگریزی جملوں کا استعمال فراوانی سے کیا جاتا ہے۔شٹ اپ،ڈونٹ ڈسٹرب می،یو باسٹرڈ،ایسے مختصر جملے اردو میں عام ہیں۔ان کا کوئی لسانی جواز نہیں۔ایسا نہیں کہ اردو میں ان جذبات یا خیالات کے اظہار کے لیے موزوں الفاظ نہیں ہیں، بلکہ مقصود لسانی ذریعے سے اپنی سماجی برتری کا اظہارہے۔ یہ جملے زیادہ تروہیں برتے جاتے ہیں جہاں فریقین میں سماجی،علمی،طبقاتی،اختیاراتی یا سن و سال کا بعد لازماً موجود ہو ۔ کہیں جذباتی شدت کے اظہار کے لیے بھی مختصر انگریزی جملوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔اور یہ بھی ان مواقع پر جب جذباتی شدت کا مفہوم ،جذباتی برتری اور اپنی جذباتی کیفیت کا پر زور اثبات ہو۔بائی گاڈ ایسا نہیں ہے۔آئی ایم ناٹ کریزی ابوٹ دیٹ مسٹر فلاں فلاں۔آف کورس،میں ہرٹ ہوا تھا۔
اسے گلوبلایزیشن کا اثر ہی کہنا چاہیے کہ اب نام ور بزرگ اردو ادبا انگریزی میں لکھنے لگے ہیں۔ انگریزی میں لکھنا بہ جائے خود معیوب نہیں، مگر سوال یہ ہے کہ وہ کن لوگوں کے لیے انگریزی میں لکھتے ہیں؟ غیر ملکی انگریزی قارئین کے لیے تو بالکل نہیں، اس لیے کہ غیر ملکی قارئین کو نہ پاکستانی انگریزی سے دل چسپی ہے اور نہ ان موضوعات سے، جن پر اردو ادبا خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ ہمارے اردو ادبا کے انگریزی کالموں اور مضامین کے موضوعات اردو ادب، مقامی تقریبات، اردو کتب، اردو ادبا ہوتے ہیں، لہذا حقیقت یہ ہے کہ ان بزرگوں کے اصل مخاطب اردو قارئین یا انگریزی میں شدھ بدھ رکھنے و الے اردو قارئین ہیں۔ پاکستانی انگریزی خواں طبقہ بھی ان کالم نگاروں کے موضوعات سے اور خود اردو سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔اس لیے سوال یہ ہے کہ اردو قارئین سے انگریزی میں تخاطب کس لیے؟ اس سوال کا جواب اس ’’پاور گیم‘‘ میں تلاش کرنا چاہیے، جو گلوبلایزیشن کی بساط پر کھیلی جا رہی ہے۔ اس گیم میں زبانیں، ثقافتیں، فنون سب مہرے ہیں۔کسی مہرے کی اپنی آزاد حیثیت میں کوئی قیمت یا طاقت نہیں؛ اس کی قیمت اور طاقت اس کھیل میں کام یابی یا نا کامی کے تناسب سے ہے۔اور کامیابی و ناکامی کا مفہوم تجارتی اور سماجی ہے۔اور سیدھے سادے لفظوں میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اردو کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے والے ادیب انگریزی میں کالم لکھ کر اردو قارئین میں ہی مزید سماجی مرتبہ اورنیا امتیاز حاصل کرتے ہیں۔
گلوبلایزیشن زبانوں (اور اس میں اردو بھی شامل ہے)کی بقا و ترقی کا ایک نیا ’’اصول‘‘ پیش کرتی ہے۔ یہ کہ زبان محض بول چال کی وجہ سے نہیں، اپنی اقتداری حیثیت کی وجہ سے باقی رہتی ہے اور ترقی کرتی ہے۔ بول چال، زبان کوثقافت سے سرفراز کرتی ہے، مگر اقتداری حیثیت زبان کو ’’طاقت‘‘ دیتی ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ زبان اپنی ثقافت کی وجہ سے اور ثقافت کے زور سے زندہ رہتی ہے، مگر اب یہ باور کیا جانے لگا ہے کہ زبان ’’طاقت‘‘ کی وجہ سے رائج ہوتی اور ترقی کی منزلیں مارتی ہے۔ گلوبلایزیشن کے زمانے میں جو زبانیں محض اپنے ثقافتی تفاخر کی وجہ سے زندہ رہنے کا خواب دیکھ رہی ہیں، وہ عالمِ غفلت میں ہیں۔انھیں یا تو ’’طاقت‘‘ حاصل کرنا ہو گی، یا پھر اس وقت کا انتظار کرنا ہو گا، جب ثقافت، طاقت میں بدل جائے گی یا پھر ثقافت کی داخلی قدر کو اہمیت ملنا شروع ہو جائے گی۔ دنیا میں نوے فیصد کے قریب جو زبانیں مر رہی ہیں، وہی ہیں جو ثقافت تو رکھتی ہیں مگر ’’طاقت‘‘ سے محروم ہیں۔
گلوبلایزیشن نے ارد زبان کو جس دوسرے زاویے سے متاثر کیا ہے، اسے عملی یا فنکشنل کا نام دیا جا سکتا ہے۔ فنکشنل انگریزی کی طرح، فنکشنل اردو رائج ہو رہی ہے۔ہر فنکسنل زبان، زبان کی روایت، جمالیاتی اور اظہاری اقدار کے بہ جاے زبان کی عملی ضرورتوں کے تابع ہوتی ہے۔ وہ استناد اور وایت کے بہ جائے سادہ، راست ، سریع اور پر زورابلاغ کو اہمیت دیتی ہے۔ پاکستان میں جو حال فنکسنل انگریزی (جسے ’انگلش کا نام دیا گیا ہے) کا ہے، اس سے بد تر حال فنکسنل اردو کا ہے، جسے بعض لوگ ’اردش کا نام دیتے ہیں، ’انگلش میں اردو الفاظ کا بے موقع استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ جیسے Jamaat Staged Dharna یا اردو انگریزی کو ملا کر وضع کی گئیں تراکیب، جیسے Mini-Jirga, Mohalla-wise, Desi Liguor, Obsreving Parda و غیرہم اور فنکشنل اردش میں انگریزی الفاظ کو کثرت کے ساتھ موقع بے موقع لایا جاتا ہے، مثلاً:
’’ایف ایم کی وجہ سے ریڈیو کے لسنرز انکریز ہوئے ہیں۔‘‘
’’ایم ٹی وی کے ویورز میںینگسٹرز کی تعداد سب سے زیاد ہ ہے۔‘‘
’’پاکستان کی اکانوی ڈے بائی ڈے ڈیکے کی طرف جا رہی ہے۔‘‘
’’میرے فادر کی ڈیتھ پر میرے ریلیٹوز نے میری پارٹیکولرلی ہیلپ نہیں کی۔‘‘
’’ٹی کو ٹیسٹی بنانے کے لیے اس میں شوگر کی کوانٹیٹی لٹل ہونی چاہیے۔‘‘
’’آج کا کریٹک اپنے لٹریچر کی ٹریڈیشن کا کوئی نالج نہیں رکھتا۔‘‘
’’پلے جیرازم یونی ورسٹیوں کی ریسرچ کا بگ اشوہے۔‘‘
’’اربن ایریاز میں کرپشن کی ریشو ہائی پیک پر ہے۔‘‘
اس طرح کے سیکڑوں جملے ہم دن رات سنتے ہیں، جن کی نحوی ساخت تو اردو کی ہوتی ہے، مگر جملے آدھے سے زیادہ انگریزی کے الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان جملوں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اردو پر انگریزی کا اثرپے چیدہ اور تہ دار ہے:نہ صرف انگریزی کے اسما،افعال،متعلق فعل،اسم صفات ،ضمائر،حروف جار کثرت سے استعمال ہو رہے ہیں بلکہ مارفیمیاتی سطحوں پر بھی اردو اور انگریزی کو آمیز کیا جارہا ہے ۔سیٹوں،ہوٹلوں،ڈگریوں،انسٹی ٹیوٹوں،بوریت،سکیمیں،ریفیوجیوں وغیرہ،یہ مارفیمیاتی آمیزش کی مثالیں ہیں۔ اس طرح کی ز بان زیادہ تر ریڈیو، ٹی وی چینلوں ،سرکاری دفتروں،تعلیمی اداروں،نجی اور سرکاری تقریبات میں سنائی دیتی ہے۔
یہ درست ہے کہ اردو میں انگریزی الفاظ کی آمد کا سلسلہ، انگریزی کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔یعنی اس وقت جب ہندستان ایک نئی قسم کی ذو لسانیت سے دوچار ہوا۔برصغیر اپنی تاریخ کی ابتدا ہی سے کثیر لسانی معاشرہ رہا ہے ، مگر انگریزوں کی آمد کے بعد یہ ایکمنفرد لسانی صورتِ حال میں مبتلا ہوا۔لسانی سطح پر انگریزی اور اردو سمیت دوسری زبانوں میں ایک نئے قسم کا ربط ضبط شروع ہوا۔نو آبادیاتی عزائم :طاقت کے ذریعے غلبہ اور استحصال ، اس ربط ضبط کی بنیاد تھے۔چناں چہ انگریزی اور اردو کے تعلق میں انگریزی شروع سے ہی نہ صرف طاقت کی علم بردار بلکہ طاقت کی علامت بھی رہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ اس وقت سیکڑوں انگریزی الفاظ اردو زبان کا نامیاتی حصہ ہیں:جیسے سٹیشن، پنسل، ریڈیو، سٹیشنری، سکول، کالج، یونی ورسٹی، گورنمنٹ، انسٹی ٹیوٹ، ریلوے، کمپیوٹر اور دیگر۔اور یہ سب الفاظ اردو کی ثروت میں اضافے کا موجب ہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے اردو میں ایک خلا کو پر کیا ہے۔ یعنی یہ ایسے الفاظ ہیں جن کے مترادف و متبادل موجود نہیں تھے اور اگر تھے تو اس مفہوم کو ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرتے تھے، جس مفہوم کے علم بردار انگریزی الفاظ ہیں۔ لہٰذایہ الفاظ اردو زبان کی نمو کی داخلی طلب کے جواب میںآے ہیں، اسی طرح محتاط انداز میں وضع کی گئیں انگریزی الفاظ کی نئی مارفیمیاتی شکلیں بھی گوارا کی جاسکتی ہیں،مگر اسسے ہٹ کر جو صورتِ حال ہے، اسے اردو زبان پر انگریزی کے قاتلانہ حملے سے تعبیر کرنا چاہیے۔ اردو زبان نہ صرف اپنی شناخت سے محروم ہوتی جا رہی ہے، بلکہ اس سے بولنے والوں کا لسانی شعور بھی مسخ ہو رہا ہے۔زبان اور انسانی شعور میں گہرا تعلق ہے۔ تازہ لسانی تحقیقات تو یہ تک کہتی ہیں کہ انسانی لا شعور (جو شعور پر حاوی ہوتا ہے) زبان کی طرح اور زبان سے ساخت پاتا ہے، لہذا کسی سماج میں اگر لسانی بدنظمی پھیل جاے تو اس کا لازمی اثر اس سماج کے افراد کے شعور و ادراک پر ہو تا ہے۔
ہم تحقیق سے بے زار قوم ہیں،ورنہ اس پہلو پر تحقیق کی جانی چاہیے کہ ہماری سماجی بد نظمی اور ثقافتی انتشار کا تعلق کس حد تک لسانی بد نظمی سے ہے۔سماجی نظم اور ثقافتی استحکام ،اقدار پر منحصر ہے اور اقدار، زبان میں ہی نہیں ،زبان کی وجہ سے اپنا وجودرکھتی ہیں۔جب اقدار کا ذریعہ اور ہیئت بد نظمی کا شکار ہو گا تو نتیجہ ظاہر ہے!
ان دنوں کثرت سے برتے جانے والے انگریزی الفاظ کے اردو زبان میں نہ صرف مترادف موجود ہیں (لسنرز کا سامعین، ویورز کا ناظرین، شارٹ بریک کا مختصر وقفہ، اکانوی کا معیشت، ڈیکے کا انحطاط،ڈیتھ کا موت،ریلٹوز کا رشتے دار،ہیلپ کا مدد،پلے جیر ازم کا سرقہ،اربن ایریاز کا شہری علاقے) بلکہ یہ سہل اور عام فہم بھی ہیں۔ انگریزی الفاظ کے بے جا استعمال کا کوئی لسانی جواز موجود نہیں۔ تا ہم اس فنکشنل اردو کا جواز اسی ’’پاور گیم‘‘ میں بہ ہر حال موجود ہے، جس کا ذکر پیچھے ہو چکا ہے۔ اسے ’’پاور گیم‘‘ کی ہنر مندانہ حکمتِ عملی کہیے یا لوگوں کی سادہ لوحی کہ اس کا حصہ وہ افراد اور ادارے بھی بن چکے ہیں، جو کبھی اردو زبان کی روایت اور اصل کے پاسبان تھے۔ ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی اردو زبان کیمستند استعمال کی مثال تھے، مگر آج وہ بھی زمانے کا چلن دیکھ کر اردو کے ثقافتی کردار کو ترک کر چکے اور فنکشنل اردو کا بے محابا استعمال کر رہے ہیں۔نو آبادیاتی اثرات کو یہ ادارے جھیل گئے تھے،مگرگلوبلایزیشن کے آگے یہ ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ شاید اس خوف کی وجہ سے کہ ثقافتی اردو کا مشن لے کر وہ’صارفی منڈی‘ میں پٹ جائیں گے۔انھیں بھی قومی شناخت اور ثقافت کے بجاے ڈھیروں ڈھیر منافع عزیز ہے۔
گزشتہ دنوں اردو کے ایک جاپانی پروفیسر نے لاہور میں ایک ادبی تقریب میں اردو سے اپنی محبت کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے ہوٹل کے کمرے میں ٹی وی چلایا اور چاہا کہ پی ٹی وی دیکھیں، محض اس نیت سے کہ انھیں پر لطف اور معیاری زبان سننے کو ملے گی، مگر انھوں نے تھوڑی ہی دیر بعد ٹی وی بند کر دیا کہ پی ٹی وی پر اردو نہیں، انگریزی نما جناتی زبان بولی جا رہی تھی۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں ایک حقیقی صورتِ حال کا اظہار ہے ۔یہی حال ہمارے شعرا،ادبا اور بیش تر اساتذہ کا ہے۔ میر ہو، میرزا ہو کہ میرا جی ہو، اس حمام میں سب ننگے ہیں اور جو اس حمام سے دور اور اپنے ستر کی حفاظت کیے ہوئے ہیں،وہ تسکین کے طبعی اور غیر طبعی ذرائع سے محروم ہیں اور کتنے لوگ ہیں جو تسکین و طاقت کی طلب سے ماورا ہوں اور صوفیانہ مسلک رکھتے ہوں۔خیر ہمارے یہاں تو تصوف کو بھی مارکیٹ کی چیز بنا دیا گیا ہے۔اس کی باقا عدہ تعلیم و تدریس شروع ہو گئی ہے اور پڑھانے والے فی لیکچر اچھا خاصا معاوضہ وصول کرنے لگے ہیں۔
فنکشنل اردو کے حق میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ چوں کہ اس کا ابلاغ ہوتا ہے، اس لیے یہ جائز ہے۔ان صاحبان کے نزدیک زبان کا بنیادی وظیفہ اس کا ابلاغ ہی ہے۔وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہکثیرلسانی معاشروں میں زبانوں کی آمیزش کے عمل پر نہ تو قابو پایا جاسکتا ہے اور نہ قابو پانے کی کوشش مستحسن ہے۔ظاہر ہے یہ سادہ لوحی ہے اور ان معاشروں میں رائج ہو تی ہے جن میں تاریخ اور تاریخی عوامل کو سمجھنے کے بجاے تاریخ کے آگے بے دست و پا ہونے کا رویہ عام ہوتا ہے۔جہاں تاریخ اور اس کی حرکیا ت کو سمجھنے کی اجتماعی روش موجود ہو وہاں تاریخ کے جبر سے آزادی کی خواہش اور تاریخی قوتوں کو اپنے بس میں لا کر تاریخ کے دھارے کا رخ بدلنے کا عزم بھی موجود ہوتا ہے۔ان سادہ لوحوں کے نزدیک کثیر لسانی صورتِ حال تاریخی جبر ہے ،جس سے بچنے کی کوئی صورت ہمارے پاس نہیں ہے۔خیربات یہیں تک محدود ہوتی تو امید کی جاسکتی تھی کہ جبر کو محسوس کر کے اس کے خلاف کسی نہ کسی درجے کی مزاحمت بھی کی جاے گی،مگر المیہ یہ ہے کہ ’’تاریخی جبر‘‘کو ناقابلِ شکست تاریخی اصول سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے آگے اسی طرح سر تسلیم خم کیا جاتا ہے جس طرح مابعدا طبیعیاتی قوت کے آگے تقدس بھرے جذبات سے جھکا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اردو اور انگریزی کا تعلق تاریخی عمل کا نتیجہ ہے ،مگر یہ عمل فطری اور ناگزیر نہیں تھا۔اس تاریخی عمل کی رفتار اور جہت پر ایک سیاسی قوت کا غلبہ تھا۔غور کیجیے :ہم بلاشبہ کثیر لسانی معاشرے کے افراد ہیں ،مگر کیا ہم انگریزی کی طرح دوسری زبانوں کو بھی اردو میں اسی انداز میں آمیز کرتے ہیں؟ یقیناًکرتے ہیں ،مگر دونوں کے اثرات یک سر مختلف ہیں۔اردومیں انگریزی شامل کر کے ہم برتری محسوس اور ظاہر کرتے ہیں، جب کہ پنجابی کی آمیزش سے شرمندگی اور مضحکہ خیزی کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔اول الذکر عمل ’’علمی ‘‘سمجھا جاتا اور ثانی الذکر ’’جہالت ‘‘ کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے ۔حالاں کہ لسانی پیمانے پر دونوں زبانوں کا درجہ یکساں ہے۔ایک ہی لسانی عمل دو مختلف اور باہم متضاد اثرات کا موجب کیوں؟اس کا جواب مذکورہ تاریخی عمل میں ہی ہے،جسے گلوبلایزیشن نے مزید مستحکم کیا ہے۔
بے شبہ زبان کا اہم وظیفہ ابلاغ ہے مگر یہ بھی سوچیے کہ زبان کو اگر محض ابلاغ تک محدود کر دیا جاے تو پھر پورا جملہ بولنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہاتھ کے اشاروں، چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی چمک سے بھی ابلاغ ہوتا ہے۔ زبان کو محض ابلاغی چیز اسی وقت قرار دیاجاتا ہے، جب اسے ایک کلچرل تشکیل کے بہ جاے، ایک کموڈیٹی سمجھا جانے لگے، جس کی قدر فقط اس کے صَرف ہو جانے میں ہوتی ہے، بالکل ٹشو پیپر کی طرح !زبان کو کلچرل تشکیل سمجھنے اور اسے بہ طور کموڈیٹی استعمال کرنے سے دو مختلف سماجی رویے ہی نہیں، دو مختلف تصور ہاے کائنات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اول الذکر صورت میں غیر افادی، جمالیاتی رویہ پیدا ہوتا ہے، جو سماجی ہم آہنگی اور ہم زبانوں کے ساتھ ذہنی یگانگت کو جنم دیتا ہے۔ علم اور تخلیق کی مسرت کو قدر اول کا درجہ دیا جاتا ہے، جب کہ زبان کو کمیو ڈیٹی کے طور برتنے سے افادیت پسندی، سطحیت پسندی کا رویہ جنم لیتا اور لذت اور تفریح پسندی کو قدرِ اوّل کے طور پر قبول کیا جانے لگتا ہے۔ یہ رویہ اور قدر بالآخر مسابقت اور تفریق کے رجحانات پر منتج ہوتا ہے۔
انگریزی کے تحکم کو بہ ہر طور قایم رکھنے اور اسے گلوبل زبان بنانے کی غرض سے کبھی اردو کو رومن رسمِ خط میں لکھنے کی تجویز پیش کی جاتی ہے اور کبھی مختصر اردو جملوں کو رومن حروف میں لکھا جانے لگتا ہے اور یہ کام سب سے زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات میں ہو رہا ہے۔ یہ اشتہارات مقامی لوگوں کے لیے ہوتے ہیں، جن کی اکثریت انگریزی نہیں سمجھتی،صرف اردو سمجھتی ہے۔ ان کے لیے رومن حروف میں ’’اورسناؤ‘‘ ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ ’’پیو اور جیو ‘‘لکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟یہی ناکہ صارفین کو بصری حس کے ذریعے کسی شے کے گلوبل ہونے کا احساس دلایا جاے۔ انگریزی زبان اپنے حروف، رسمِ خط اور الفاظ ہر سطح پر گلوبل ہے، اس بات کا لوگوں کو یقین دلانا اور اس یقین کے ذریعے انھیں گلوبل شہری ہونے کا احساس دلانا۔گلوبلایزیشن لوگوں کو گلوبل شہری ہونے کا احساس ضرور دلاتی ہے کہ وہ گلوبل اشیااستعمال کرتے اور گلوبل زبان سے کسی نہ کسی طور وابستہ ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ گلوبل شہری نہیں، گلوبل صارف پیدا کرنا، گلوبلایزیشن کا ایجنڈا ہے۔
آخر میں اس سوال پر غور کرنا بے جا نہیں ہو گا کہ زبانوں کے تعلق میں بالعموم اور اردو زبان کے حوالے سے بالخصوص، گلوبلایزیشن سے خیر کی کوئی توقع بھی کی جا سکتی ہے؟ یقیناً کی سکتی ہے۔اگر ہم عالمی تبدیلیوں کے ضمن میں اپنے روایتی منفعل کردار کو ترک کر دیں اور ان تبدیلیوں کی حقیقی نوعیت اور اصل سمت کو سمجھیں۔ تبدیلیوں کو عجلت میں یا کسی پرانے تاثر کی وجہ سے فوراً مستردیا قبول کرنے کی روش سے باز آجائیں۔ کسی تبدیلی کو اس کے اصل تناظر اور سیاق میں رکھ کر سمجھنے سے ان امکانات کو گرفت میں لیا جا سکتا ہے،جن کی وجہ سے وہ تبدیلی ہمارے تناظر میں موزوں اور مفید ہو سکتی ہے۔
یہ درست ہے کہ گلوبلایزیشن کی حقیقی نوعیت، صارفیت ہے اوراس کی اصل سمت زبان اور (صارفی) کلچر کی اجارہ داری ہے، مگر یہ بھی دیکھیے کہ گلوبلایزیشن نے خیالات، نظریات اور سائنسی و ٹیکنالوجیکل آلات کے آزادانہ ’’بہاؤ‘‘ کو ممکن بنایا ہے۔ اس ’’بہاؤ‘‘ کو اگر ہوش مندانہ طریقے سے سمجھا جاے تو اسے اپنی زبان اور کلچر کی ترقی کا وسیلہ بنایا جا سکتا ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گلوبلایزیشن میں خود تردیدی اور خود شکنی کا پور اپورا ساما ن موجود ہے۔ جب وہ (صارفی اغراض سے سہی) اشیا و نظریات کے آزادانہ بہاؤ کا اہتمام کرتی ہے تو ان اشیا و نظریات سے وابستہ ’’طاقت‘‘ بھی ان لوگوں کی دست رس میں آجاتی ہے، جوان کے صارف ہیں۔مثلاً انگریزی زبان تمام علوم کی زبان ہونے کی وجہ سے ’’طاقت‘‘ کی حامل ہے، اس کے ذریعے تمام یا بیش تر علوم تک رسائی ممکن ہوتی اور ’’طاقت‘‘ حاصل ہو جاتی ہے۔ بہ شرطے کہ ہم اس زبان کے محض صارف نہ بنیں، ’’طاقت‘‘ کے حصول اور اسے اپنے لیے موزوں و مفید بنانے کو اپنامطمحِ نظر بنائیں۔
اردو زبان کے تعلق میں دیکھیں تو کئی حقیقی طور پر گلوبل ٹیکنالوجیکل اور سائنسی اور تنقیدی اصطلاحات اردو میں داخل ہو رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حقیقی گلوبل اور ’’صارفی گلوبل‘‘ میں فرق روار کھا جائے۔

حواشی:
(۱) گلوبلایزیشن کے متوازی دو اور اصطلاحات بھی گردش میں ہیں‘ گلوبل ازم اور گلو کلایزیشن۔ان میں امتیاز کرنے کی ضررت ہے۔ گلوبل ازم کو گلوبلایزیشن کی تھیوری‘ اور پس منظری فکر کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں گلوبلایزیشن‘ گلوبل ازم کی عملی صورت ہے۔ گلوبل ازم اشیا کے گلوبل ہونے کا تصور دیتی اور گلوبلایزیشن اس تصور کی تجسیم کا وہ سارا پے چیدہ اور کثیر الاطراف عمل ہے‘ جس سے پوری دنیا دوچار ہے، جب کہ گلوکلایزیشن کی اصطلاح کو گلوبلایزیشن کے رد عمل میں وضع کیا گیا ہے۔ گلوبلایزیشن اشتراک اور یکسانیت کی قائل ہے‘ مگر گلو کلائزیشن افراق اور کثرت کو بر قرار رکھنے پر زور دیتی ہے۔ یعنی لوکل او گلوبل کے تصور کی بہ یک وقت علم بردار ہے کہ کچھ چیزوں کو تو گلوبل ہونا چاہیے ان پر دنیا کے تمام خطوں کے تمام لوگوں کا تصرف اور اختیار ہونا چاہیے مگر یہ سب مقامی ثقافتی‘ لسانی شناخت کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔


Back to Conversion Tool

No comments:

Post a Comment