Wednesday, August 3, 2011

Linguistics and Criticism

لسانیات اور تنقید


لسانیات اور تنقید کے رشتے کی نوّ عیت، ایک دوسرے پر انحصار یا دونوں میں باہمی فصل یا ایک دوسرے کے معاون و مددگار یا محض ایک کے دوسرے کے دست بازو بننے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان امور پر غور و فکر ضروری ہے۔
(ا) لسانیات کی مختلف تعریفوں اور قسموں کو ایک لمحے کے لیے نظر انداز کرتے ہوے اتنی بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کا موضوع زبان ہے اور تنقید کی مختلف تعریفوں اور دبستانوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوے اتنا یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا موضوع ادب ہے۔ لہٰذا لسانیات اور تنقید کے رشتے کی نوّ عیت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک زبان اور ادب کے رشتے کی وضاحت نہ کی جاے۔ اگر یہ سمجھا جاے کہ زبان اور ادب میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ بات اس بنیاد پر تسلیم کی جاے کہ ادب آرٹ کی ایک قسم ہے اور دیگر قسموں جیسے موسیقی، مصوّری، رقص کے مقابلے میں ادب کا امتیاز اس کا ذریعہ اِظہار ہے، جو زبان ہے تو لسانیات اور تنقید کا موضوع ایک ہو جاتا ہے اور دونوں میں کوئی فصل دکھائی نہیں دیتا، مگر یہ دلیل (جو اکثر دی جاتی ہے) بودی ہے۔ یہ نہ صرف لسانیات اور تنقید کے ان امتیازات سے لاعلمی ظاہر کرتی ہے جو ان دونوں نے اپنے تاریخی سفر کے دوران میں قایم کیے ہیں، بلکہ زبان اور ادب کے نازک فرق سے ناواقف ہونے کا ثبوت بھی دیتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ادب کا ذریعہ اِظہار یا میڈیم ،زبان ہے اور اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ دوسرے فنون کے مقابلے میں زبان، ادب کا امتیازی وصف بھی ہے، جس طرح موسیقی کا امتیازی وصف آواز اور مصوّری کا رنگ ہے مگر کیا موسیقی اور آواز کو یا مصوّری اور رنگ کو مترادف قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقیناًنفی میں ہے تو ادب اور زبان میں بھی فرق ہے۔ تاہم یہ فرق ویسا نہیں ہے، جیسا آواز اور موسیقی میں ہے یا مصوّری اور رنگ میں ہے۔ آواز اور رنگ، موسیقی اور مصوّری سے باہر آزادانہ طور پر معانی نہیں رکھتے؛ وہ خام مواد ہیں۔ جب کہ زبان، ادب سے باہر آزادانہ طور پر نہ صرف معانی رکھتی ہے، بلکہ اپنے آپ میں ایک مکمل ابلاغی نظام اور ثقافتی مظہر ہے، اس لیے اپنے خام مواد اور میڈیم کو آرٹ کے درجے تک پہنچانے کے لیے جو آسانیاں موسیقار اور مصوّر کو حاصل ہوتی ہیں ،شاعر ان سے محروم ہوتا ہے۔ آرٹ کی تمام شکلوں میں میڈیم کی قلبِ ماہیت کی جاتی ہے۔ شاعر کو اپنے میڈیم کی قلبِ ماہیت کرنے میں سب سے بڑی دقّت یہ ہوتی ہے کہ اُسے زبان کے حوالہ جاتی فریم ورک کو توڑنا پڑتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شاعری سے باہر موجود زبان اور شاعری کی زبان میں فرق ہوتا ہے۔ جو شاعر یہ فرق پیدا نہیں کر سکتا، وہ محض کلامِ موزوں پیش کرتا ہے، شاعری نہیں۔
ان معروضات سے ظاہر ہے کہ زبان اور ادب میں فرق موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ فرق نوع کا ہے یا درجے کا؟ اس سوال کا جواب اُوپر کی معروضات میں ہی موجود ہے۔ ادب زبان کی قلبِ ماہیت کرتا ہے، یعنی زبان کو نشانیاتی سطح پرتبدیل کرتا ہے (کبھی کبھی مارفیمی سطح پر بھی تبدیل کرتا ہے،معمولی نحوی تبدیلیاں بھی کرتا ہے)۔دوسرے لفظوں میں ’’نئی زبان‘‘ ایجاد کرتا ہے۔ چوں کہ ایجاد کا یہ عمل زبان پر ہی آزمایا جاتا ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ دونوں میں صرف درجے کا فرق ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس نتیجے کی تہ میں یقیناًزبان کا خاص مفہوم مضمر ہے جس کے مطابق زبان کسی سماجی گروہ کی روزمرہ کی ابلاغی ضرورتوں کی تکمیل کرنے والا نظام ہے۔ یہاں لسانیات اور تنقید میں ایک فرق تو آئنہ ہو جاتا ہے کہ تنقید کی دل چسپی اگر زبان سے ہے تو فقط زبان کے اس استعمال سے ہے، جو ادب سے مخصوص ہے اور لسانیات کی دل چسپی زبان یعنی لسانی اظہارات کی جملہ صورتوں سے ہے۔ ادب سے لسانیات کو دل چسپی یقیناًہے، مگر لسانی اظہار کی ایک مخصوص صورت کے طور پر۔ بلوم فیلڈ ادبی زبان کو لسانیاتی تحقیق کا کوئی قابل ذکر شعبہ نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے یہ خیالات توجہ چاہتے ہیں۔
’’ماہر لسانیات تمام لوگوں کی زبان کا مطالعہ یکساں طور پر کرتا ہے۔ اسے کسی عظیم ادیب کی زبان کے انفرادی اوصاف سے دل چسپی ہوتی ہے، جو اس کی زبان کو اس کے عہد کے عام لوگوں کی زبان سے ممیز کرتے ہیں، مگر یہ دل چسپی بس اتنی ہی ہے جتنی کسی دوسرے آدمی کی زبان کے انفرادی اوصاف سے ماہر لسانیات کو ہوتی ہے اور یہ دل چسپی اس سے تو بہت ہی کم ہے جو اسے تمام لوگوں کی زبان کے اوصاف جاننے سے ہوتی ہے‘‘۔ (۱)
بلوم فیلڈ کا یہ بیان لسانیات کے ادب کی طرف عمومی رویے کا عکاس ہے۔ چناں چہ اسلوبیات، جسے بعض لوگ ایک تنقیدی دبستان قرار دیتے ہیں، اصل میں ادب کی مخصوص زبان کے امتیازات کا مطالعہ کرتی ہے۔ حقیقتاً اسلوبیات تنقیدی دبستان نہیں، لسانیاتی دبستان ہے۔ اس کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ہر شعبہِ علم اور فن کی مخصوص زبان ہے، جسے سٹائل یا اسلوب کہا گیا ہے۔ مذہب، سیاست، قانون، باغبانی، صحافت، تاریخ، فلسفے، سب کی جدا زبان یا منفرد سٹائل ہے۔ ا س سٹائل کے امتیازی اوصاف کا مطالعہ اسلوبیات ہے۔ لہٰذا لسانیات کی طرح اسلوبیات بھی زبان کے جملہ اور متنوّع اظہارات کا مطالعہ کرتی ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتی ہے کہ آخر ایک شعبہ ،زبان کے متعدّداظہاری امکانات میں سے کچھ کو منتخب کرتا اور دیگر کو مسترد کیوں کرتا ہے؟(۲) آخر ایک مخصوص صورتِ حال میں ایک سٹائل موزوں، برمحل اور معنی خیز ہوتا ہے، مگر یہی سٹائل دوسری صورتِ حال میں مضحک اور ناگوار ہو جاتا ہے۔ کیوں؟
یہاں یہ سوال بجا طور پر اٹھایا جاسکتا ہے کہ لسانیات کے نقشے میں تو ادب اور ادبی زبان کو معمولی جگہ دی گئی ہے۔ کیا تنقید کے نقشے میں ادبی زبان کے مطالعے کو مرکزی حیثیت تفویض ہوئی ہے؟ افسوس کہ تنقید بھی اس ضمن میں دریا دلی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ اس مقام پر لسانیات اور تنقید ادبی زبان کے مطالعے کے ضمن میں متفق ہیں: دونوں کی مطالعاتی سکیموں میں ادبی زبان حاشیے پر ہے۔
(ب) تسلیم کہ ادبی زبان لسانیات اور تنقید کا مرکزی موضوع نہیں، مگر موضوع بہ ہر حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں کا طریقِ مطالعہ یکساں ہے؟ کیا جن وجوہ سے لسانیات ادبی زبان کو اپنے نقشے میں غیر اہم جگہ دیتی ہے، انھی وجوہ سے تنقید بھی ادبی زبان کے امتیازات کے مطالعے کو کم اہم سمجھتی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ دونوں کے پاس الگ الگ وجوہ ہیں اور انھی وجوہ کی بنا پر لسانیات اور تنقید میں ایک دوسرا فرق آئنہ ہوتا ہے۔
لسانیات زبان کا سائنسی مطالعہ کرتی ہے۔ سائنسی مطالعہ تفہیم، وضاحت، توجیہہ اور تجزیے سے غرض رکھتا ہے۔ چناں چہ زبان کے سائنسی مطالعے میں نَوبہ نَو لسانی اظہارات اور انحرافات کی توجیہہ و وضاحت تو ہوتی ہے؛ ایک قسم کے اظہار کو دوسری طرح کے اظہار پر ترجیح دینے کا اقدام نہیں کیا جاتا۔ ترجیح دینے کا عمل اقداری ہے۔ لہٰذا لسانیات کو اقدار سے غرض نہیں۔ ایک زبان کو دوسری سے بہتر یا کم تر قرار دینے یا ایک طرزِ اظہار کو دوسرے طرزِ اظہار سے خوب صورت یا بدصورت ثابت کرنے کی کوئی کوشش لسانیات میں نہیں ملتی۔ اظہار کی مختلف طرزوں میں فرق و امتیاز کی نشان دہی ، وضاحت اور توجیہہ کی جاتی ہے اور بس۔ لہٰذا لسانیات ایک عظیم ادیب کی زبان اور ایک عام آدمی کی زبان میں اقداری فرق نہیں کرتی۔ خالص لسانیاتی نقطہِ نظر سے غالب کو امام دین گجراتی کی زبان پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ وہ دونوں کے اسلوب میں محض فرق دیکھتی اور اس صورتِ حال کو جاننے کی کوشش کرتی ہے جو اس فرق کی ذمے دار ہے۔ جب کہ تنقید کی بنیاد ہی اقدار پر ہے۔ بہتر اور کم تر، حسین اورقبیح کا شعور تنقیدی عمل کے عین آغاز میں بے دار اور متحرک ہو جاتا ہے۔ تنقید بھی عظیم ادیب اور چھوٹے ادیب، ادیب اور عام آدمی کی زبان میں فرق دیکھتی ہے، مگر یہ فرق اقداری ہوتا ہے۔ چھوٹا ادیب زبان کی جمال آفرینی اور معنی خیزی کے امکانات کو بروئے کار نہیں لا سکتا، جب کہ بڑا ادیب یہ امکانات مجسم کرتا ہے اور عام آدمی ان امکانات کی موجودگی سے ہی بے خبر یا لاتعلق ہوتا ہے۔ چوں کہ تنقید ادب کی جملہ جہات کی تفہیم و تعبیر بھی کرتی ہے اور زبان یا اسلوب ادب کی محض ایک جہت ہے، اس لیے وہ اپنے مطالعاتی عمل میں اسے کلیدی حیثیت نہیں دیتی۔
(ج) تعین قدر، تنقید کا اولین فریضہ ہے، مگر واحد فریضہ نہیں۔ توضیح، تعبیر اور تجزیہ بھی تنقید کے فرائض میں شامل ہیں۔ تنقید ان فرائض سے آگاہ تو ہوتی ہے، مگر انھیں پورا کرنے کے وسائل نہیں رکھتی۔ یہ وسائل جن کی نوّ عیت باقاعدہ نظریات، عمومی بصیرتوں اور طریق کار کی ہے ،تنقید کو اِدھر اُدھرسے، یعنی دیگر علوم سے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا ارسطو سے لے کر دریدا تک تنقید اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے سلسلے میں معاصر علوم کی بصیرتوں کی طرف برابر راجع رہی ہے۔ لسانیات بھی ایک علم ہے۔ اس لیے یہ بھی تنقید کے فرائض کی ادائیگی میں معاونت کی اہل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا لسانیات تنقید کی اسی طرح مدد کرتی ہے، جس طرح دوسرے علوم؟ نیز اس مدد کی نوّ عیت کیا ہے؟ یعنی کیا لسانیات، ادبی متن کے تجزیے و تعبیر میں مدد کرتی ہے یا تعبیر یا تجزیے کامحض طریقِ کار فراہم کرتی ہے؟ ان سوالوں کے جواب اسی وقت دیے جا سکتے ہیں، جب لسانیات اور دوسرے علوم کا فرق اور لسانیات کی قسمیں اور شاخیں پیش نظر ہوں۔
لسانیات اپنے وسیع مفہوم میں سماجی علم ہے۔ زبان سماجی تشکیل ہے، لسانیات اس تشکیل کی نوعیت اور اس میں مضمر و کارفرما قوانین اور اس کے ارتقا کا مطالعہ کرتی ہے۔ اس علم کی نوعیت بالائی نظر میں وہی ہے جو بشریات، عمرانیات، تاریخ اور نفسیات کی ہے، مگر چوں کہ لسانیات کا معروض یعنی زبان، ثقافتی، عمرانی اور ذہنی تشکیلات سے مختلف اور بعض صورتوں میں ان سب پر حاوی ہے، اس لیے لسانیات ،دیگر سماجی علوم کے مقابلے میں کچھ مختلف ہو جاتی اور ان پر حاوی بھی ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ لسانیات، بشریات، عمرانیات، تاریخ اور نفسیات کے مقابلے میں تنقید کو اور طرح کی مدد فراہم کرتی ہے۔
اصولاً لسانیات کی دو قسمیں ہیں: عمومی اور توضیحی۔ عمومی لسانیات زبان کا اور توضیحی لسانیات کسی مخصوص زبان کا مطالعہ کرتی ہے۔ زبان یا مخصوص زبان کے مطالعات تاریخی (Diachronic) یا یک زمانی (Synchromic) ہوتے ہیں۔ ان دونوں کے فرق کو نسبتاً تفصیل سے سمجھنا ضروری ہے کہ اس کے بعد ہی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ لسانیات، تنقید کی کس نوع کی مدد کر سکتی اور اب تک مدد کی ہے۔
ہرچند جدید لسانیات کا آغاز ۱۷۸۶ء سے متصور ہوتا ہے، جب سرولیم جونز نے یہ انکشاف کیا کہ سنسکرت، یونانی، لاطینی اور جرمینک زبانوں سے تعلق رکھتی ہے، مگر یہ فلالوجی یا تقابلی و تاریخی لسانیات کا آغاز تھا۔ آگے پوری انیسویں صدی میں تاریخی لسانیاتی مطالعات کا دور دورہ رہا۔ تاریخی لسانیات دراصل زبان کی جامع سوانح مرّ تب کرتی ہے۔ وہ زبان میں عہد بہ عہد ہونے والے تاریخی تغیرات کو گرفت میں لیتی ہے کہ زبان کے ارتقا کا جامع تصور مرتب ہو سکے۔ گویا تاریخی لسانیات اولاً یہ مفروضہ قایم کرتی ہے کہ زبان جامد نہیں ہے ۔وہ ایک متحرک اور ارتقا پذیر چیز ہے۔ زبان کا یہ تحرک لفظ، معانی، صرف، نحو سب سطحوں پر ہے۔ تاریخی لسانیات اس پورے تحرک کو گرفت میں لیتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحرک زبان کے سارے فی نومی نن کے مترادف ہے؟ کیا ہم زبان کی تاریخی ارتقائی کڑیوں کو مرتب کر کے زبان کے اس ابلاغی طریق کار کو بھی سمجھ سکتے ہیں جو لمحہِ حاظر میں کام کر رہا ہے اور جس کی وجہ سے افراد کے مابین مکالمہ ممکن ہو رہا ہے؟ ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ کلرک کی اصل یونانی زبان کا لفظ Klerikos ہے، جس کا مطلب نصیب، ورثہ یا قسمت ہے۔ عیسائیوں نے اسے حصہ کہا اور وہ چھوٹا پادری مراد لیا، جوگرجے میں بڑے پادری کے ساتھ رسوم کی ادائیگی میں حصہ لیتا تھا۔ چوں کہ پادری، چھوٹا ہو یا بڑا، اس کے لیے مذہبی معلومات کا حامل ہونا ضروری تھا، اس لیے کلرک سے مراد تعلیم یافتہ فرد لیا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ گرجے کا حساب کتاب اور دوسرا تحریری ریکارڈ رکھنے کی ذمے داری بھی اس کے سپرد ہوئی۔ سولھویں صدی میں اس لفظ کے ساتھ وابستہ مذہبی مفہوم ختم ہو گیا اور لکھنے پڑھنے اور دفتری کام کرنے والے کو ہی کلرک کہا جانے لگا۔ (۳)
لفظ کلرک کے بارے میں یہ سوانحی اور تاریخی معلومات دل چسپ تو ہیں، مگر کیا یہ لمحہِ موجود میں لفظ کلرک کو اپنی مقصد براری کے لیے استعمال کرنے میں مدد گار بھی ہیں؟ بلاشبہ یہ سوال تاریخی لسانیات کے دائرے سے باہر ہے کہ تاریخی لسانیات کوئی ایسا علم مہیا کرنے کا دعویٰ نہیں کرتی جو ایک زبان بولنے والوں کی ابلاغی ضرورتوں کے کام آسکے؛وہ تو محض زبان کی تاریخ سے خالص علمی دل چسپی رکھتی ہے، مگر تاریخی لسانیات کے دائرے کی محدودیت کا احساس ہی ہمیں مذکورہ سوال اٹھانے اور زبان کے ایک نئے علم کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔ تاریخی لسانیات کے حدود اور مجبوریوں کا شدید احساس سوس ماہرلسانیات فرڈی نینڈ سوسیئر (۱۸۵۷ء۔ ۱۹۱۴ء) کو ہوا۔ انھوں نے تاریخی لسانیات کے حدود کی وضاحت میں تین نکات بہ طور خاص پیش کیے۔
اوّل یہ کہ تاریخی لسانیات، زبان کے ابلاغی عمل کی وضاحت نہیں کرتی۔ دوم یہ کہ ابلاغی عمل کے دوران میں یہ علم موجود ہی نہیں ہوتا کہ زبان میں وقتاً فوقتاً کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ اُردو بولنے والا اور اس میں پوری کام یابی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر ادا کرنے والا یہ علی العموم نہیں جانتا کہ کلرک کبھی قسمت، ترکے، پادری کے معاون کے معنوں میں بھی رائج تھا۔ وہ یہ جانے بغیر اپنا مدعا پوری تفصیل سے پیش کرنے میں کام یاب ہوتا ہے کہ پمفلٹ کسی زمانے میں خفیہ طور پر تقسیم ہونے والی عشقیہ نظم کے مفہوم میں استعمال ہوتا تھا۔ سوم یہ کہ زبان کی صوتی، تکلمی، نحویاتی یا معنیاتی تبدیلیوں کا علم ابلاغ کے عمل میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ عین لمحہ ابلاغ میں اگر کسی لفظ کے صوتی و معنیاتی تغیرات کی تمام کروٹیں کسی مقرر کے احاطہ شعور میں بے دار و متحرک ہو جائیں تو ابلاغ ممکن ہی نہ ہو۔ (۴)
اس طور تاریخی لسانیات غیر ضروری نہیں تو غیر سائنسی ضرور ہو جاتی ہے۔ اگر زبان کی سائنس کا مطلب زبان کے ان تمام قوانین کی دریافت ہے، جو اسے بہ طور زبان قایم کرتے ہیں تو یہ کام تاریخی لسانیات کے بس کا نہیں۔ چناں چہ سوسیئر نے زبان کے یک زمانی (Synchromic) مطالعے کی بنیاد رکھی۔ یک زمانی مطالعے کے ذریعے زبان کے ان بنیادی قوانین کو دریافت و مرتب کیا جاتا ہے جو کسی زبان کے پس پشت یا تہ میں موجود ہوتے اور زبان کی ابلاغی کارکردگی کو ممکن بنا رہے ہوتے ہیں۔ (۵)
مگر سوال یہ ہے کہ تاریخی لسانیات پر یہ اعتراض ادبی تنقید کے نقطہِ نظر سے کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا زبان کا تاریخی علم ادبی متن کی معنی یابی اور تعبیر و تجزیے میں معاون ہوتا ہے یا مزاحم؟ اگر ہم عام روزمرہ لسانی ابلاغ اور ادبی متن کو یکساں قرار دیں تو پھرکَہ سکتے ہیں کہ ادبی متن کی تفہیم میں بھی زبان کا تاریخی علم مزاحم ہوتا ہے، لیکن اگر دونوں کے فرق کو ملحوظ رکھیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ زبان کا تاریخی علم کہیں ادبی متن کی درست تفہیم میں اور کہیں نئی تعبیر میں اور کہیں فکر انگیز تجزیے میں معاون ہو سکتا اور ہوتا ہے۔ عام لسانی ابلاغ فوری، زبانی اور عارضی ہوتا ہے، جب کہ ادبی متن تحریری، دیرپا اور مستقل ہوتا ہے۔ نیز ادبی متن میں عام زبان بھی منقلب ہو جاتی ہے۔ اس لیے عام زبان کی کئی باتوں کا اندھا دھند اطلاق ادبی متن کی زبان پر نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ادبی تنقید میں تاریخی لسانیات کے چنیدہ عناصر (بالخصوص لفظوں کے بدلتے معانی) کو استعمال کرتے ہوئے ادبی متن کے اپنے تناظر کو ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے وگرنہ محض علم کا اظہار ہو گا؛متن کی نئی سطح پر تفہیم و تعبیر نہ ہو سکے گی۔ شمس الرحمن فاروقی نے میر کے اشعار کی شرح میں تاریخی لسانیات کو کثرت سے استعمال کیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اکثر مقامات پر شعر کے داخلی تناظر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔
سوسیئر کی ساختیاتی لسانیات محض اپنے طریقِ مطالعہ اور موضوعِ مطالعہ کے اعتبار سے ہی تاریخی لسانیات سے مختلف نہیں بلکہ اپنے نتائج، اثرات اورمضمرات کے لحاظ سے بھی مختلف ہے۔ تاریخی لسانیات اپنے اثرات کے لحاظ سے مائیکرو ہے۔یہ ایسے نتائج تک نہیں پہنچتی یا ایسے انکشافات نہیں کرتی جو ماوراے لسانی ہوں اور دیگر علوم کے لیے کار آمد ہوں؛یہ محض زبان کی تاریخ سے آگاہ کرتی اور اس سے آگے اپنی نارسائی کا اعلان کردیتی ہے، مگر ساختیاتی لسانیات کا معاملہ دوسرا ہے ۔یہ اپنے نتائج و اثرات کی ر’و سےَ میکرو ہے : یہ زبان کا سائنسی ماڈل پیش کرتی ہے ،اور اسے آگے دیگر سماجی علوم کے سپرد کر دیتی ہے ،لہٰذا یہ اپنی پیش رو کی مانند’’ خود اپنی ذات ‘‘ تک محدود نہیں رہتی۔ ساختیاتی لسانیات کے بشریات، اساطیر، نفسیات، ادب، فلسفے، تاریخ اور کلچر پر اثرات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ لسانیات سماجی علوم کے قلب میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوئی ہے۔ لیوی سٹراس تو اس سے بھی ایک قدم آگے جاتا ہے اوریہ کہتا ہے کہ ساختیاتی لسانی ماڈل، انسانی ذہن کی بنیادی ساخت کو منکشف کرتا ہے۔ یہ ساخت ان طریقوں اور قوانین کی حامل ہے، جو تمام سماجی اداروں، فنون اور علوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ (۶)
ژاک لاکان اس سے بھی آگے جاتا اور انسانی لاشعور کو ساختیاتی لسانی ماڈل کی مانند قرار دیتا ہے۔ یعنی لسانیاتی اصولوں کو ،اپنی حقیقی یا تعمیمی شکل میں انسانی شعور کے پس پردہ کارفرما دیکھتا ہے ۔بہ ظاہر ان آرا میں مبالغہ محسوس ہوتا اور ساختیاتی لسانی ماڈل سے مبالغہ آمیز توقعات کا شائبہ ہوتا ہے اور کسی حد تک ساختیاتی لسانیات کے فیشن بن جانے کا احساس بھی ہوتا ہے، مگر اس کا کیا کیا جاے کہ ساختیاتی لسانیات کی بنیاد پر اساطیر، ثقافتوں، لوک کہانیوں، تاریخ، ادب، تحلیلِ نفسی کے مطالعات کیے گئے اور نئی بصیرتیں اخذ کی گئی ہیں۔
آخر ساختیاتی لسانیات میں وہ کیا خاص بات تھی کہ اسے یہ اہمیت ملی؟ اس ضمن میں دو نکات توجہ طلب ہیں:ایک یہ کہ ساختیاتی لسانیات نے زبان کی اس تہ نشیں ساخت کی نشان دہی کی، جس کی وجہ سے ہمہ اقسام لسانی کارکردگی ممکن ہوتی ہے۔ اس ساخت کو سوسیئر نے لانگ کا نام دیا۔ لانگ کی وجہ سے ہی ہم سیکڑوں، ہزاروں جملے اختراع کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہر مظہر کی تہ میں ساخت یا لانگ کارفرما ہوتی ہے۔ یہ مظہر کوئی نفسیاتی وقوعہ ہو، کوئی اسطور ہو یا کوئی ادب پارہ ہو یا کوئی خاص فیشن! یہیں سے نشانیات (Semiology) کا باقاعدہ رواج ہوا۔
دوسرا توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ساختیات نے زبان اور دنیا کے رشتے کا نیا اور بعض کے لیے صدمہ پہنچانے والا تصور دیا۔ افلاطون سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک یہ تصور عام اور مقبول رہا کہ زبان ایک شفاف میڈیم ہے؛یہ دنیا کی ترجمانی حقیقت کے ساتھ کامل وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرتی ہے۔ افلاطون کے یہاں تو یہ تک کہا گیا ہے کہ زبان ہی شے کا علم دیتی ہے۔ (۷) محض اشیا کے نام جان لینے سے اشیا کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ گویا زبان، شے یا حقیقت کی متبادل ہے اور جب ہم باتیں کرتے ہیں تو اشیا ہی ہمارے پاس موجود ہوتی ہیں۔زبان سے متعلق مذہبی تصورات اسی نظریے سے ماخوذ ہیں۔قدیم مذاہب میں تویہ نظریہ مبالغہ آمیزی کے ساتھ موجود تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ لفظ میں وہ ساری قوت سمٹی ہوئی ہے،جسے اس لفظ سے وابستہ شے میں متصور کیا جاتا تھا۔ ساختیات نے اس نظریے کو معصومانہ قرار دیا۔
ساختیات کے مطابق زبان اشیا کو نہیں، اشیا کے ان تصورات کو پیش کرتی ہے جنھیں زبان اپنے مخصوص قوانین کے تحت تشکیل دیتی ہے۔ زبان میں اشیا کی طرف اشارہ ضرور موجود ہوتا ہے (یعنی شے Referent کے طور پر موجود ہوتی ہے) مگر یہ اشارہ فطری یا منطقی نہیں ، من مانا اور ثقافتی ہوتا ہے۔ زبان نشانات کا نظام ہے اور ہر نشان نے دوسرے نشان سے فرق کا رشتہ قایم کر رکھا ہے۔ فرق کی وجہ سے ہی تمام لسانی کارکردگی ممکن ہوتی ہے۔ سوسیئر تو یہ تک کہتا ہے کہ زبان میں فرق کے علاوہ کچھ نہیں۔ (۸) دوسرے لفظوں میں فرق سے مرتب ہونے والا لسانی نظام دنیا کی ترجمانی کرتا ہے،لہٰذا یہ ترجمانی کامل وفاداری سے ممکن نہیں ہوتی کہ دنیا اور زبان کے درمیان، زبان کا یہ نظام موجود ہوتا ہے۔ ہم زبان کے ذریعے دنیا کا براہ راست نہیں، زبان کے راستے سے علم حاصل کرتے ہیں۔ زبان میں ہم دنیا کو بہ عینہٖ ہی نہیں دیکھتے ،زبان کے مخصوص قوانین کے تحت تشکیل پانے والی دنیا کو دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے ،یہ زبان کے علم کے سلسلے میں مکمل پیراڈایم شفٹ ہے۔پہلے زبان اور دنیا کی ثنویت کا احساس تو موجود تھا ،مگردونوں کے ثنوی رشتے کو غیر فعال سمجھ لیا گیا تھا۔ساختیات نے نہ صرف اس رشتے کی فعالیت اجاگر کی ہے بلکہ دنیا کے لسانی علم میں زبان کے فعال کردار کو منکشف کیا ہے۔یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ یہ انکشاف کوپر نیکس کے انکشاف سے کم نہیں ہے۔جس طرح کوپر نیکس نے انسان اور زمین کو ’’بے مرکز‘‘کر دیا تھا ،اسی طرح ساختیات نے انسانی سبجیکٹ کو بے مرکز کردیا ہے۔
یہی دو نکات بالعموم اساطیر، لوک کہانیوں، ادب اور دیگر ساختیاتی و پس ساختیاتی مطالعات میں راہ نما اصولوں کے طور پر پیش نظر رہے ہیں۔
ساختیاتی لسانیات سے تنقید نے غیر معمولی مدد لی ہے۔ اس مدد کے نتیجے میں تنقید ’نئی تنقیدی تھیوری‘ میں منقلب ہوئی ہے۔ تنقید کا تھیوری کا لیبل اختیار کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ساختیات کے زیر اثر تنقید نے بھی ادبی متون کے اسی طرح نظری ماڈل مرتب کیے ہیں، جس طرح ساختیات زبان کا نظری ماڈل مرتب کرتی ہے۔ جس طور ساختیات زبان کے جامع تجریدی نظام، یعنی لانگ تک پہنچی ہے، اسی طور تنقید ادب کی شعریات تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ لسانیات میں جو لانگ ہے، ادب میں وہ شعریات ہے۔
شعریات کی دریافت میں نئی تنقیدی تھیوری نے دو رُخ اختیار کیے ہیں: ایک تو شعریات کو خود ادب میں دریافت کیا گیا ہے، دوسرا زبان میں۔ یعنی ایک طرف یہ سمجھا گیا ہے کہ جیسے زبان کیَ تہ میں جامع تجریدی نظام کارفرما ہوتا اور اس زبان کی ساری کارکردگی کا ضامن ہوتا ہے، ویسے ہی ادب کیَ تہ میں ایک جامع نظام موجود ہے۔ گویا تمثیلی منطق کے تحت زبان اور ادب کو مساوی سمجھا گیا ہے۔ دونوں کو ایسے متون خیال کیا گیا ہے جو ایک جیسی کارکردگی کے حامل ہیں۔ بجا کہ یہاں زبان اور ادب کے بعض امتیازات پس منظر ہیں چلے گئے ہیں، مگر ساختیات ایک جبر آمیز نظریے کے بجائے مطالعہِ ادب کا سائنسی طریقِ کار فراہم کرتی ہے جو ادب کے تہ نشین نظام کو مرتب کرتا ہے۔ دوسری طرف یہ خیال کیا گیا ہے کہ شعریات خود زبان میں موجود ہے؛ شعریات زبان کا ہی ایک وظیفہ ہے۔ واضح رہے کہ دونوں صورتوں میں شعریات کا تصور ساختیاتی لسانیات سے ہی ماخوذ ہے۔
رومن جیک سن شعریات کو خود زبان میں دیکھتے ہیں، جب کہ رولاں بارت اور تودوروف اسے ادب میں تلاش کرتے ہیں۔
رومن جیک سن نے اپنا نظریہ اپنے مشہور ترسیلی ماڈل کے ذریعے پیش کیا ہے۔ اس ماڈل کے مطابق کسی پیغام کی ترسیل میں چھ عناصر حصہ لیتے ہیں: مقرر؛پیغام؛ سامع؛ تناظر؛کوڈ اور وسیلہ۔ یعنی مقرر کسی سامع کو پیغام بھیجتا ہے؛یہ پیغام ایک کوڈ میں مضمرہوتا اور تناظر میں بامعنی ہوتا ہے۔ پیغام کی ترسیل کسی وسیلے (آواز یا کاغذ) سے ہوتی ہے۔ اس ماڈل کی بنیاد پر زبان کے چھ وظائف ہیں۔ جب ترسیلی عمل میں زور، مقرر پر ہو تو زبان کا وظیفہ جذباتی (Emotive) ہو جاتا ہے۔جب زور ،سامع پر ہو تو زبان کا وظیفہ ارادی یا Conative ہوتا ہے :سامع تک ارادی معنی کی ترسیل مقصود ہوتی ہے۔جب تناظر کو مرکزی اہمیت دی جائے تو زبان کا وظیفہ حوالہ جاتی ہو جاتا ہے:کلام کے معانی ،کلام سے پیوستہ تناظر سے متعین ہوتے ہیں۔ جب کوڈ پر زور دیا جائے توزبان کا وظیفہ ’میٹا لنگول‘ ہو گا :کوڈ کو کھولنے (جو میٹا لینگوئج کو پیشِ نظر رکھنے کا عمل ہے)سے معانی متعین ہوں گے۔اورجب وسیلے پر زور دیا جائے توزبان رسمی یا Phatic وظیفے کو انجام دے گی۔اور جب سارا زور پیغام پر ہو تو زبان کا وظیفہ شاعرانہ ہو گا۔(۹) گویا ان کے نزدیک شعریات سے مراد محض شاعری ہے۔ ادب کی دیگر اصناف ان کے پیش نظر نہیں ہیں اور شاعری کی شعریات بھی زبان کے ایک مخصوص استعمال سے عبارت ہے۔ یعنی زبان کے چھ کے چھ وظائف بہ یک وقت کارفرما ہوتے ہیں؛ شاعری اس وقت وجود میں آتی ہے جب ان چھ وظائف میں درجہ بندی قایم ہو جاتی ہے اور پہلے درجے پر پیغام آجاتا ہے،باقی تمام عناصر اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔پیغام ،زبان کے حوالہ جاتی ،تناظراتی،ارادی اور دیگر وظائف پر حاوی ہو جاتا ہے۔وضاحتِ احوال کے لیے مجید امجد کا یہ شعر دیکھیے:
مرے نشانِ قدم دشتِ غم پہ ثبت رہے
ابد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا ، نہ رہا
اس شعر میں زبان کے مذکورہ چھ عناصر موجود ہیں:متکلم ہے؛مخاطب ہے؛تناطر ہے؛کوڈ (دشتِ غم بہ طور استعارہ)ہے؛میڈیم (کاغذ) ہے اور پیغام یا ایک خاص معنی ہے۔ایک تخیلی شخصیت دوسری تخیلی شخصیت سے ،مخصوص شعری روایت اور صورتِ حال کے تناظر میں اس پیغام کی ترسیل کر رہی ہے کہ ’غم کے صحرا پر میرے قدموں کے نشان مٹے نہیں ،باقی رہے ہیں،جب کہ ابد کی لوح پر تقدیر کا لکھا باقی نہیں رہا۔صحرا میں نشان مٹ جاتے ہیں اور لوحِ تقدیر پر کندہ تحریر امٹ ہوتی ہے،مگر غم ایک ایسا صحرا ہے ،جس پر انسانی قدموں کے نشان ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔تقدیر بدل سکتی ہے ،لیکن غم سے نجات ممکن نہیں ہے۔‘یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ شعر کی نثر کرنے کے بعد ،زبان کے عناصر کی ترتیب اور درجہ بندی بدل گئی ہے۔چناں چہ شعر میں پیغام کی ترسیل جس انداز میں ہورہی ہے،اس کی نثری تلخیص کے ذریعے اس انداز میں نہیں ہو رہی۔شعر میں لسانی عناصر کی ترتیب میں پیغام سرِفہرست ہے اور متکلم،سامع،تناظر وغیرہ بعد میں آتے ہیں۔شعر پڑھتے ہی قاری کے ذہن میں سب لسانی عناصر متحرک ہوتے ہیں ،اور ایک دائرہ تشکیل دیتے ہیں،جس کا مرکزہ ،شعر میں کوڈ کیا گیا پیغام ہے۔اس پیغام کی شعریت کا مدار ،اس کی مرکزیت پر ہے۔یہ عمل اپنی نوعیت نہیں،اپنے اثر کے اعتبار سے ساختیات کی لانگ کے مماثل ہے۔تاہم غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اگر مرکزیت متکلم ،سامع یا تناظر کو حاصل ہو جاے تو کیاساری شعریت زایل ہو جاے گی؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا اسے شاعری کا بنیادی اصول قرار دیا جاسکتا ہے اوریہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ یہی اصول شاعری کی تعینِ قدر کا پیمانہ بھی ہے؟کیا شاعری کا بنیادی اصول ہی ،اس کی تعین قدر کا اصول ہے؟اس شاعری کے بارے میں کیا کہیں گے جس میں مرکزیت تناظر یا متکلم یا سامع کو حاصل ہوتی ہے؟اردو کی بیش تر ترقی پسند شاعری میں تناظر اوّل ہے؛رومانی شاعری میں متکلم پر زور دیا گیا ہے؛عوامی شاعری میں سامع پر زور ہوتا ہے۔صاف محسوس ہوتا ہے کہ جیکب سن کے پیشِ نظر جدید شاعری ہے،جس میں پیغام مرکز میں ہوتا ہے۔اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہی شعر کی ایک سے زاید طریقوں سے قرات میں،لسانی عناصرپر زور کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ غالب کے اشعار یاد کیجیے۔اگر جیکب سن کے اصول کو شاعری کا بنیادی اصول قرار دیں تو لا بدی ہے کہ جدید شاعری کو ہی شاعری کا ماڈل سمجھیں۔ظاہر ہے جدید شاعری اپنے تمام امتیازات کے باوجود ،تمام شاعری کا پیمانہ نہیں ہو سکتی۔
جیکب سن کا ماڈل یقیناًمحدود ہے؛یہ لسانی وطائف میں امتیاز قایم کر کے ،جدیدشاعری کے بنیادی اصول کی وضاحت کرتا ہے اور یہ وضاحت اپنے دائرے میں انکشاف کا درجہ بھی رکھتی ہے۔جیکب سن کے ترسیلی ماڈل میں یہ امکان بہ ہر حال موجود ہے کہ اس کی مدد سے فکشن کی شعریات بھی مرتب کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔مثلاًجاسوسی فکشن میں کوڈ پر زور ہوتا ہے۔داستان میں سامع پراور حقیقت نگاری کی روایت میں لکھے گئے افسانے میں تناظر کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔اس طور دیکھیں تو ساختیاتی لسانیات شاعری اور فکشن کی شعریات کی تدوین میں کئی طریقوں سے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
رولاں بارت اور تودوروف شعریات کا تصور تو ساختیات سے لیتے ہیں، مگر اسے ادب پر چسپاں کرنے کے بجاے اسے ادب میں دریافت کرتے ہیں۔ ساختیات زبان کے نظام کو ضابطوں (کوڈز) اور رسمیات (کنونشنز) سے عبارت قرار دیتی ہے جنھیں ثقافت تشکیل دیتی ہے۔ اسی اصول کے تحت ادب کا نظام یا شعریات بھی ضابطوں اور رسمیات سے عبارت ہے؛ انھیں بھی ثقافت تشکیل دیتی ہے۔ رولاں بارت نے بہ طور خاص اپنی عملی تنقیدات میں ان ضوابط اور رسمیات کو دریافت کیا ہے۔ خصوصاً Sarassine کے مطالعے میں یہ دکھایا ہے کہ کس طرح پانچ کوڈ اس ناول کے پورے معنیاتی عمل کو ممکن بنا رہے ہیں۔
ساختیاتی لسانیات زبان کے نظام میں فرق کو بنیادی اہمیت دیتی ہے۔ یہ کہ ہر نشان اس لیے بامعنی ہے کہ وہ صوتی، تکلمی اور معنوی سطحوں پر دوسرے نشان سے مختلف ہے، ورنہ کسی نشان میں اپنی معنی خیزی کا کوئی فطری یا منطقی نظام موجود نہیں ہے۔ اس اصول کی رُو سے بھی ادبی مطالعات کیے گئے ہیں۔ خصوصاً بیانیات (Narratology) (جو ساختیات کے فکشن پر اطلاق سے وجود میں آئی ہے) فرق اور اضدادی جوڑوں کو متن کی معنی خیزی کے عمل میں بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتی ہے۔(تفصیل کے لیے کتاب میں شامل مضمون’فکشن کی تنقید کے نظری مباحث‘ ملاحظہ کیجیے۔)
ان معروضات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ساختیاتی لسانیات، ادبی متن کے تعبیر و تجزیے میں مدد دینے کے بجائے، ادبی متن کی ساخت کو سمجھنے کا طریقِ کار اور ماڈل فراہم کرتی ہے،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ لسانیات متن کی تعبیر و تجزیے کا کوئی نیا طریق کار فراہم ہی نہیں کرتی۔
ساختیات کی کلیت پسندی اور مرکز جوئی پر پہلی شدید ضرب دریدا نے ساخت شکنی (ڈی کنسٹرکشن) کی شکل میں لگائی اور اسی آلے سے جو ساختیات کے پاس تھا: لسانیات۔ دریدا نے سوسیئر کا یہ نکتہ تو قبول کیا کہ معنی تفریق سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ کہ زبان کا سارا نظام فرق سے عبارت ہے۔ پھول اس لیے پھول ہے کہ اس کے فونیم گول، ہول اور فول سے الگ اور متفرق ہیں، مگر دریدا اس بات کو ماننے پر تیار نہیں تھا کہ زبان میں فرق کا یہ سلسلہ کبھی ختم ہوتا ہے۔ یہ محض ملتوی ہوتا ہے (Differance) اور ہمیں کسی معنی کی وحدت کا تجربہ اس لیے ہوتا ہے کہ زبان کی تفریقی ساخت کو دبایا جاتا ہے۔ (یہ ایک اہم سوال ہے کہ دبانا زبان کا اصول ہے یا ہماری روزمرہ کی ابلاغی ضرورت کی وجہ سے ہے؟) اسی طرح دریدا اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ زبان اپنے آپ میں خود مختار و مکمل ہے،یعنی متن سے باہر کچھ نہیں۔ کوئی تحریر، خود سے باہر اپنا تناظر نہیں رکھتی۔ مگر چوں کہ (دریدا کے یہاں) تناظر لسانی ہے اور ہر لسانی نشان کا Trace باقی رہتا ہے اور Trace کسی متن کے خارجی ماخذ کا شائبہ ہے، (۱۰) اس طور متن کا اپنا لسانی تناظر، تاریخی و سماجی تناظر سے منسلک ہو جاتا ہے اور یہیں سے متن کی تعبیر کی راہ کھل جاتی ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ تعبیر آزادانہ اور من مرضی کی نہیں ہوتی بلکہ لسانی و تاریخی تناظر کی ہم رشتگی کے مذکورہ تصور کے تحت ہوتی ہے۔
یہ کہنا سادہ لوحی ہو گی کہ تنقید اور لسانیات میں تعلق کی یہی صورتیں ممکن ہیں، مگر یہ کہنا مبنی برانصاف ہو گا کہ تنقید، لسانیات سے یا تو متن کے تعبیر و تجزیے کا طریق کار مستعار لیتی ہے یا پھر تعبیر و تجزیے میں براہ راست مدد لیتی ہے۔ تاہم کچھ اور طریق کار بھی منتخب کیے جاسکتے ہیں اور کسی دوسری طرح سے تعبیرِ متن میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً لسانیات اور دیگر علوم کے تعلق سے پیدا ہونے والی لسانیات کی شاخیں جیسے سماجی لسانیات، نفسی لسانیات وغیرہ تنقید کو تعبیر متن کے نئے انداز فراہم کر سکتی ہیں۔ ویسے تو سماجی و نفسی لسانیات کی طرز پر تخلیقی لسانیات کو خالص سائنسی بنیادوں پر قایم کرنے کی ضرورت اور اسے تنقیدِ متن میں بروئے کار لانے کی حاجت ہے۔ تخلیقی لسانیات اسلوبیات سے مختلف ہو گی۔ یہ محض ادب کی زبان کے انفراد و امتیاز کا مطالعہ نہیں کرے گی (جیسا کہ اسلوبیات کرتی ہے) بلکہ اس نفسی تخلیقی حالت کے تناظر میں ادبی زبان کا مطالعہ کرے گی جو ادب کو وجود میں لانے کی ذمے دار ہے اور جس کے ہاتھوں زبان نحوی سطح پر نئی ترتیب اور معنیاتی سطح پر تقلیب سے ہم کنار ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جیکب سن کے ترسیلی ماڈل پر نظرِ ثانی کی جاے اور ایک نئے لسانی عنصر کو شامل کیا جاے۔متکلم کے علاوہ ،اپنے باطنی انکشاف کو اہمیت دینے والے تخیلی کردار کو اس ترسیلی ماڈل کا حصہ سمجھا جاے۔یہ کردار تخلیقی عمل کے دوران میں ہی اور لسانی دائرے میں اپنے خدوخال حاصل کرتا ہے۔تخلیقی لسانیات اس مشترک ساخت کی تحقیق بھی کرے گی جو فرد کی نفسی کیفیت اور سماج کی تہذیبی حالت کو یکساں طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

حواشی:
۱۔ ان کا اصل اقتباس یہ ہے:
"The linguist studies the language of all persons alike, the individual features in which a great writer differs from the ordinary speech of his time and place interest the linginst no more than the individual features of any other person and speech, and much less than the features that are common to all speakers."
(Language, London, 1935, Ailen and Unwin. P 21-2)
۲۔ رے منڈ چیپ مین کے لفظوں میں سٹائل کی خصوصیت یہ ہے:
"The basis... is the choice of certain liagnistic features in place of others."
(Raymond Chapman, Language and Literature. London: Edward Arnold (Publishers) Ltd. 1984, p 10)
۳۔ ڈاکٹر سید حامد حسین: لفظوں کی انجمن میں؛مکتبہ جامعہ، نئی دہلی،؛۱۹۹۶ء، ص ۱۴
۴۔ اس ضمن میں سوسیئر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
"133 The language user is unaware of their succession in time: he is dealing with a state. Hence the linguist who wishes to understand this state, must rule out of consideration everything which brought that state about, and pay no attention to diachrony. The intervention of history can only distort his judgment."
(Course in General Linguistics, Open Court, La salle, Illinois 1992, P 81).
5- "The aim of general synchronic linguistics is to establish the fundamental principles of any idiosynchronic system, the facts which constitute any linguistic state."(IBID P 99)
6- "(Levi Strauss) believes that this linguistic model will uncover the basic structure of human mind - the structure which governs the way human beings, shape all their institutions, artifacts and forms of knowledge."
(Raman Solden, Peter Widdowson: Contemporary Literary Theory; The University Press of Kentuckey, 1993, PIII)
۷۔ افلاطون نے یہ بحث Cratylas میں اٹھائی ہے۔ بالعموم یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ زبان اور دنیا کے رشتے پر غور کرنے والا پہلا آدمی افلاطون ہے، جو درست نہیں ہے۔ افلاطون سے کہیں پہلے بھرتری ہری یہ بحث پیش کر چکا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بھرتری ہری اور افلاطون دونوں زبان اور دنیا کے رشتے کو حقیقی اور فطری قرار دیتے ہیں۔ افلاطون کہتا ہے کہ اشیا کا نام جان لینے سے اشیا کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔
مزید جاننے کے لیے دیکھیے:
* Donald G. Ellis
* From Language and Communication; London, Lawerence Erlbaum Association Publishers. 1992.
* Sibajiban Bhattacharyya, Bhartri Hari and Withengstein, Dehli, Sahitya Akademi, 2004.
۸۔ سوسیئر کے تصور نشان کی وضاحت کے لیے کورس کے صفحات ۶۵ تا ۷۰ ملاحظہ کیجیے۔
۹۔ رومن جیکب نے مقالہ ’’لسانیات اور شعریات‘‘ کے عنوان سے ۱۹۵۶ء میں انڈیانا یونی ورسٹی میں پیش کیا تھا۔ ان کے پیش نظر بنیادی سوال یہ تھا کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو ایک لسانی عملی کو آرٹ کا نمونہ بناتی ہے ؟ اس سوال کا جواب انھوں نے لسانیات میں ہی تلاش کیا۔ مزید بحث کے لیے ملاحظہ کیجیے۔
David Lodge (ed): Modern criticism and Theory; Dehli, Pearson, 2003
P 31-56.
10- "... There is nothing outside the text."
"... The writing has no context external to itself which would coerce its movement."
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے۔
Frank Lentricchia: After the New criticism; London: Methuem,P 160-73





Back to Conversion Tool


Back to Home Page

No comments:

Post a Comment